انقرہ (این این آئی)شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے ‘آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق شمالی شام میں ترک فوج اور کرد ڈیموکریٹک فورسز کے درمیان گھسان کی جنگ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق کرد فورسز نے تل ابیض کے علاقے میں ترک فوج کے خلاف جوابی کارروائی کرکے اہم علاقہ ترک فوج سے واپس لے لیا۔انسانی حقوق گروپ کے مطابق ترک فوج کی طرف سے شمالی شام میں کردوں کے ٹھکانوں پر زمینی اور فضائی حملے بدستور جاری ہیں۔
آبزرویٹری کے مطابق ترک فوج نے تل ابیض میں الیاسہ نامی ایک قصبہ قبضے میں لیا تھا مگر ایس ڈی ایف نے چند گھنٹے بعد اس پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ادھر راس العین کے مقام پر بھی ترکی اور اس کی حامی ملیشیا کے قبضے سے متعدد اہم مقامات آزاد کرالیے ہیں۔جمعرات کی شام سرحد پر واقع ترک دیہاتوں پر بھی گولہ باری کی گئی جبکہ شام کے آبزرویٹری نے جمعرات کی شام مالکیہ شہر پر بین الاقوامی اتحادی طیاروں کو بھی پرواز کرنے کی تصدیق کی ہے۔شام کے شہر قامشلی میں ترک فوج نے زمینی کارروائی کے دوران توپ خانے سے گولہ باری کی ہے جس کے نتیجے میں شہریوں کو جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے آبزرویٹری کو معلوم ہوا کہ ترک حامی گروہوں کے ایک گروپ نے تل ابیض کے علاقے الدادات پر قبضے کے بعد بڑے پیمانے پر شہریوں کے گھروں میں لوٹ مار کی ہے۔انقرہ کے وفادار شامی گروہوں نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ ترک افواج نے راس العین اور تل ابیض شہروں کا محاصرہ کرلیا ہے۔شامی حزب اختلاف کے ترجمان میجر یوسف حمود نے کہا ہے کہ راس العین اور تل ابیض اب ان کے محاصرے میں ہے۔ترکی کی افواج کی جانب سے کردوں کے زیرِ قبضہ علاقوں پر حملوں میں تیزی آنے کے بعد شمالی شام میں دسیوں ہزار افراد نے اپنے گھر بار چھوڑ دیے ہیں۔ترک فوج نے سرحدی قصبوں راس العین اور تل ابیض کو گھیرے میں لے لیا ہے اور امدادی اداروں کو خدشہ ہے کہ یہ انخلا لاکھوں کی تعداد تک پہنچ سکتا ہے۔
دوسری جانب عالمی برادری کی جانب سے ترکی کے اس اقدام کی مذمت کی جا رہی ہے اور ترکی پر زور دیا جا رہا کہ وہ یہ حملے بند کرے۔ترکی نے کرد ملیشیا سے پاک محفوظ زون بنانے کی اپنی کارروائی کا دفاع کیا ہے جہاں شامی مہاجرین بھی رہ سکتے ہیں۔ترکی کرد ملیشیا کی سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جو اس کے بقول ترکی مخالف شورش کی حمایت کرتی ہیں۔واضح رہے کہ ایس ڈی ایف دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں امریکہ کی کلیدی حریف رہی ہیں۔خیال رہے کہ ترکی کی یہ کارروائی صدر ٹرمپ کی جانب سے اس خطے سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے فیصلے کے بعد شروع ہوئی ہے
اور اس اقدام کو دراصل حملے کی اجازت کے حربے کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے۔امریکہ میں صدر ٹرمپ کے رپبلکن اتحادیوں میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا نے ترکی کو موثر طور پر حملے کے لیے گرین لائٹ دی۔بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) کا کہنا ہے کہ اطلاعات کے مطابق 64,000 افراد پہلے ہی اپنا گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بھی یہی تعداد بتائی ہے۔آئی آر سی کی مستی بس ویل کا کہنا ہے اگر کارروائی جاری رہی تو یہ ممکن ہے کہ 300,000 افراد بے گھر ہو سکتے ہیں۔ایک دوسری امدادی تنظیم نے متنبہ کیا ہے کہ یہ تعداد 450,000 بھی ہو سکتی ہے۔بس ویل کا کہنا ہے آئی آر سی کی ٹیمیں گراؤنڈ میں موجود ہیں، اگرچہ دیگر اطلاعات کے مطابق کچھ امدادی گروپ ترکی کی سرحد سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔