برسلز (این این آئی) یورپی پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیرکی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں ایک تازہ دستاویز جاری کی ہے۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق دستاویز میں کہاگیا ہے کہ پانچ اگست سے مقبوضہ وادی میں ہزاروں سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیاگیا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کی ریسرچ سروس کی طرف سے جاری دستاویز میں مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا حوالہ دیتے ہوئے مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے پکڑ دھکڑ کی کارروائیوں،
ذرائع مواصلاتی کی بندش، اہلخانہ کو اپنے رشتہ داروں سے ملاقات سے روکنا اور ادویات کی قلت اور ہسپتالوں تک رسائی میں کشمیریوں کو درپیش مشکلات کا ذکر کیاگیا ہے۔ دستاویزر میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بھارت کے فیصلے کے حوالے کہاگیا ہے کہ اس اقدام سے مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب بگاڑنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ دستاویز میں خبردار کیاگیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں انسانی بحران پید اہونے کا خدشہ ہے اور نوجوان انتہا پسندی کی طرف مائل ہوسکتے ہیں۔ کشمیر کونسل یورپ کے چیئرمین علی رضا سید نے برسلز سے جاری ایک بیان میں مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے بارے میں یورپی پارلیمنٹ کی طرف سے تازہ ترین دستاویز کے اجراکا خیرمقدم کیا ہے تاہم انہوں نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین سمیت عالمی برداری سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ علاقے سے کرفیو ہٹانے اور کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی بحالی کیلئے بھارت پر دباؤ بڑھائیں۔ دریں اثناء علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم کشمیر طلباء نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰYogi Adityanathسے ملاقات سے انکار کر دیاہے۔ وزیر اعلیٰ نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے حاصل ہونے والے فوائد بتانے کیلئے کشمیر ی طلباء کو ملاقات کی دعوت دی تھی۔ کشمیری طلباء نے ایک بیان میں کہا کہ ایک ایسی صورتحال میں جب مقبوضہ کشمیر میں ذرائع مواصلات معطل ہیں اور غیر قانونی حراستوں، تشدد اورعام شہریوں کی تذلیل کی خبریں عالمی میڈیا کی سرخیاں بن چکی ہیں،
اتر پریش کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کوئی معنی نہیں رکھتی۔ طلباء نے کہا کہ اگر بھارتی حکومت نے انکے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے ان سے مشورہ نہیں کیا اور انہیں اپنے گھر والوں سے بات کرنے سے روک رکھا ہے، وزیر اعلیٰ کے پاس کیا اخلاقی جواز ہے کہ وہ انہیں ملاقات کی دعوت دیں۔ ادھر بھارت کے 780سے زائد ممتاز سائنسدانوں، محققین اور ماہرین تعلیم نے اپنے دوبیانات میں مودی حکومت پر مقبوضہ کشمیرمیں جاری مواصلاتی بندش اورپابندیاں فوری طورپر ختم کرنے پر زوردیا ہے۔ ان بیانات مقبوضہ علاقے کے تعلیمی اداروں پر پابندیوں کے اثرات کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے اور ذرائع مواصلات اور انٹرنیٹ سروس معطل کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔