واشنگٹن (این ین آئی)امریکا نے اسرائیل مخالف ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی ، سیاسی اور کاروباری تعلقات پر نظرثانی کا عندیہ دے دیا ہے۔ یہود مخالف جذبات کے انسداد اور ان کی نگرانی کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کے خصوصی ایلچی ایلن کار نے اتوار کو ایک بیان میں اسرائیل کی حمایت میں یہ نیا بھاشن دیا ہے اور ان کے بقول یہ یہود مخالفت کو صہیونیت مخالفت کے مشابہ قرار دینے کی جانب پالیسی میں تبدیلی کا مظہر ہے۔
ایلن کار نے اسرائیل کے دورے کے موقع پر کہا ہے کہ امریکا غیرملکی حکومتوں اور لیڈروں سے تعلقات پر نظرثانی کرسکتا ہے اور امریکا کسی بھی ایسے ملک سے تعلقات یقینی طور پر نظرثانی کرے گا جہاں یہود مخالف جذبات پائے جاتے ہیں اور ایسے کسی ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات تشویش کا موجب ہیں۔انھوں نے کہا کہ میں دوطرفہ ملاقاتوں میں اس معاملے کو اٹھاؤں گا اور میں دنیا بھر میں بند کمرے کی ملاقاتوں میں ایسا کررہا ہوں۔ تاہم مسٹر کار نے کسی خاص ملک یا لیڈروں کا حوالہ دینے سے گریز کیا ہے اور یہ بھی وضاحت نہیں کی کہ ٹرمپ انتظامیہ ان کے خلاف کیا اقدامات کرسکتی ہے؟البتہ ان کا کہنا تھا کہ میں سفارتی اقدامات ( ٹولز) کے بارے میں بات نہیں کرسکتا ۔ہر ملک کو ایک مختلف سفارتی چیلنج درپیش ہے۔اس کی صورت مختلف ہے۔ دوم ،اگر میں ان اقدامات کا انکشاف کرنا شروع کردوں تو پھر یہ کم اثر ہوجائیں گے۔امریکا کے بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسرے ری پبلکن لیڈرو ں کو یہ امید ہے کہ اسرائیل کی حمایت سے یہودی ووٹر ان کی جانب راغب ہوں گے ۔ان میں ترقی پسند جمہوری پارٹی کے حلقوں میں فلسطین نواز آوازوں سے متاثر نہ ہونے والے لوگ بھی شامل ہیں۔اس کے ساتھ ناقدین صدر ٹرمپ کے محاذ آرائی ، قومیت پرستی پر مبنی بیانیے کو ہدف تنقید بناتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے امریکا کے منافرت پھیلانے والے گروپوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہواہے۔تاہم ٹرمپ انتظامیہ اس الزام کو یکسر مسترد کرتی ہے۔مسٹر ایلن کار کا کہنا تھا کہ صہیونیت مخالفت اور یہود مخالفت کو باہم مساوی قرار دینے سے یقینی طور پر ایک نئی بنیاد پڑے گی۔یہودی دنیا کے ساتھ معاملہ کاری کرنے والے اس کے بارے میں جانتے ہیں۔آج کی دنیا میں یہود مخالفت ایک ایسا رنگ ہے جو بذات خود بھی صہیونیت مخالفت کی چھتری تلے چھپ جاتاہے۔