بدراسری بھگوان (این این آئی)برونائی میں شریعہ قوانین کے نفاذ پرایشیا کے مسلم اکثریتی ممالک کے سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد نے اسلام کی ان تشریحات کی حمایت کی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اس پیش رفت کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کی اس چھوٹی سی سلطنت نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ خصوصاً ایشیائی ممالک بہ شمول پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں سوشل میڈیا پر
اس سلسلے میں زبردست بحث دیکھی گئی۔ سوشل میڈیا پر ایک طرف تو اس پیش رفت کو اسلامی قوانین کی قدر سے تعبیر کر کے حمایت دیکھی گئی، تاہم دوسری جانب بعض افراد نے ان سزاؤں کو سفاکانہ اور اسلام کی غیردرست تشریحات سے عبارت قرار دیا۔اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو کے پانچ زبانوں میں شائع کردہ مضمون پر چوبیس گھنٹوں میں قریب دو ہزار تبصرے سامنے آئے۔ انڈونیشیا میں بعض صارفین نے ان قوانین کواللہ کے قوانین‘قرار دیتے ہوئے ’اگلی نسل کی بقا‘ کے لیے ضروری قرار دیا جب کہ دوسری جانب بعض نے لکھا کہ برونائی ان قوانین کے بغیر ایک بہتر ملک تھا۔ انڈونیشی صارفین میں سے بعض نے اس قانون سے دوری اختیار کرتے ہوئے لکھا کہ یہ قوانین ان کے ملک انڈونیشیا کے بنیادی فلسفے یعنی تنوع کے اصول کے خلاف ہیں۔بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ایک صارف نے اپنے تبصرے میں کہا کہ یہ قانون موجودہ تہذیب کے لیے ضروری تھے کیوں کہ جدید دنیا بے حیائی کی جانب بڑھ رہی ہے اور مذہبی قوانین سماجی نظم کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم ایک اور صارف نے اپنے تبصرے میں کہا کہ جدید معاشرہ شرعی قوانین کے تحت نہیں چلایا جا سکتا اور جدیدیت مخالف انسانی تہذیب کو دوبارہ عہدِ قدیم کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔پاکستان میں بھی ان قوانین پر مختلف طرح کے تبصرے سامنے آئے، بعض نے لکھا کہ برونائی ایک خودمختار ریاست ہے اور مغربی دنیا کو اس کے معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک صارف نے لکھا کہ شرعی قوانین انسانیت کے لیے بے حد سود مند ہیں۔