کراچی(این این آئی)پاکستان میں اینٹی منی لانڈرنگ کے سخت قوانین رائج ہونے کے باوجود فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایشیا پیسفک کے بھارتی نژادسربراہ کے متعصبانہ رویے اور لابنگ کی وجہ سے پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج نہیں کیا جارہا۔اس ضمن میں فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک محمدبوستان نے بتایاکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سخت ترین شرائط کے تحت ایکس چینج کمپنیوں کی ہر ٹرانزیکشن کی وڈیو ریکارڈنگ اور اس وڈیوکو2ماہ تک محفوظ رکھنے کی شرط ہے۔
انھوں نے کہاکہ دنیابھر میں3000ڈالر کی ٹرانزیکشنز پر شناخت نامے کی شرط ہے لیکن پاکستان میں500ڈالر کی ٹرانزیکشن پر بھی سی این آئی سی کی شرط عائد ہے۔ پاکستانی ایکس چینج کمپنیوں پر کیش ٹرانزیکشنز پر بھی پابندی عائد ہے۔پاکستان میں قوانین پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کے نتیجے میں ایکس چینج کمپنیوں کا یومیہ کاروباری حجم بھی 30فیصد گھٹ گیا ہے اور یومیہ ٹرانزیکش کاحجم 8تا10ملین ڈالر سے گھٹ کر5سے6ملین ڈالر کی سطح پر آگیا ہے۔ ایکس چینج کمپنیوں کی سخت شرائط پر عمل درآمد کی وجہ سے اپنی شناخت چھپانے والے غیرقانونی منی چینجرز سے رجوع کررہے ہیں جن کے خلاف ایف آئی اے سمیت دیگر متعلقہ ادارے متحرک ہیں اور کئی افراد کو گرفتار بھی کیاگیا ہے۔ملک بوستان نے بتایا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پلان کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت متعلقہ ریگولیٹراور محکموں کی قائم کردہ ٹاسک فورس ہر ٹرانزیکشن کی سخت مانیٹرنگ کررہے ہیں اور کسی بھی مشکوک ٹرانزیکشن پر ٹرانزیکشن ہولڈرز سے منی ٹریل طلب کی جاتی ہے۔انھوں نے کہا کہ انسداد منی لانڈرنگ سے متعلق آگاہی کیلیے اسٹیٹ بینک نے مستقل بنیادوں پر آگاہی مہم بھی جاری رکھی ہوئی ہے جبکہ ایکس چینج کمپنیاں بھی مرکزی بینک کے اشتراک سے اپنے عملے کوباقاعدہ تربیت فراہم کررہی ہیں جس کی وجہ سے ایکس چینج کمپنیوں کے عملے کو ٹرانزیکشن کے دوران ہی آگاہی ہوجاتی ہے۔ملک بوستان نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کے تعاون سے اے کیٹیگری ایکس چینج کمپنیوں نے ایک ایسا آٹوجنریٹ سافٹ ویئر بھی نصب کیا ہے جس میں اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کے جاری کردہ بلیک لسٹ تنظیموں اور افراد کے نام دستیاب ہیں۔