نیویارک (این این آئی)سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے ایک سال قبل سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے مبینہ طور پر اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کی خفیہ مہم کی منظوری دی تھی۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے سعودی دستاویز کو پڑھنے والے امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس مہم کے تحت مبینہ طور پر سعودی عوام کی نگرانی، اغوا، حراست میں رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں تشدد کا نشانہ بنانا بھی شامل ہے۔
امریکی حکام کے مطابق سعودی عرب نے اس منصوبے کو سعودی ریپڈ انٹر وینشن گروپ قرار دیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ کچھ خفیہ مشن اسی ٹیم کے اراکین نے انجام دئیے جنہوں نے اکتوبر میں استنبول کے سعودی سفارتخانے میں جمال خاشقجی کو قتل کیا تھا اور دعویٰ کیا کہ صحافی کا قتل اپنے مخالفین کی آواز دبانے کی مہم کا حصہ تھا۔واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھنے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کو دنیا بھر سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور امریکی سینیٹرز نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ذمے داران کے خلاف کارروائی کریں البتہ انہوں نے اس تجویز پر عمل نہیں کیا تھا۔امریکی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان نے سینیٹرز کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں اس بات پر یقین ہے کہ سعود ولی عہد محمد بن سلمان صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں البتہ سعودی عرب اس سے انکار کرتا رہا ہے۔ابتدائی طور پر سعود عرب نے کہا تھا کہ اسے جمال خاشقجی کے بارے میں کوئی علم نہیں تاہم عالمی سطح پر دباؤ بڑھنے کے بعد سعودی عرب نے کہا تھا کہ سعودی صحافی استبول میں سعودی سفارتخانے میں ایک لڑائی کے دوران مارے گئے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ریپڈ انٹروینشن گروپ گزشتہ سال گرفتار کی گئیں خواتین کو حراست اور انہیں ذہنی اذیت کا نشانہ بنانے میں بھی مصروف ہے اور یہ ٹیم ماہ جون میں اس حد تک مصروف تھی کہ اس کے سربراہ نے ولی عہد کے مشیر سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی ٹیم کو عیدالفطر کا بونس دیا جائے۔