لاہور(آن لائن)مسئلہ کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ بھارتی فوج نہتے کشمیریوں پر کبھی تشدد کرتی ہے اور کبھی انہیں پیلٹ گن سے نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن بھارتی حکومت بے حسی کی تصویر بنے بیٹھی رہتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کی میز تک لائیں تو گذشتہ دہائیوں سے چلے آ رہے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مذاکرات کاروں نے 2000 کے وسط میں بحرانوں سے نکلنے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک روڈمپ تیار کیا تھا جس پر دوبارہ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ تفصیلات کے مطابق امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ اور پاکستانی صدر پرویز مشرف نے با اعتماد حامیوں کے ذریعے خفیہ مذاکرات شروع کئے تھے ، ملک گیر احتجاج کے باعث مشرف کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور یوں امن کا یہ منصوبہ ختم ہو گیا، دونوں ممالک مسئلے کے حل کے انتہائی قریب تھے ۔لیکن ممبئی حملوں کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے ۔ نریندر مودی نے وزیراعظم بننے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں تباہ کن پالیسی اختیار کی، جس کی زد میں آ کر سینکڑوں کشمیری شہید اور گرفتار ہوئے ۔ مودی کے حکومت میں آنے کے بعد کشمیری نوجوان بڑی تعداد میں مسلح تحریک میں شامل ہوئے ۔ حالیہ کشیدگی کے بعد متعدد مغربی ممالک کے سفیر پاکستان کے موقف پر یقین رکھتے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے تمام معاملات پر بھارت کو بات چیت کی پیش کش کی اور اب پاکستان نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا آغاز بھی کر دیا ہے۔مودی اپنے سخت موقف سے ہٹتے نظر نہیں آتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن میں فائدے سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف سخت مقف کی ضرورت ہے ۔بھارت میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ کو مذاکرات کی بات کرنی چاہئیے۔پاکستان کو کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی جاری رکھنی چاہئیے اور مودی کو ہٹ دھرمی ختم کر کے مقبوضہ کشمیر میں طاقت کا استعمال بند کرنا چاہئیے۔اس وقت دونوں ممالک کو بیک چینل ڈپلومیسی کی بھی ضرورت ہے ۔پرویز مشرف اور منموہن سنگھ کے امن منصوبے سے آگے بڑھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔