تہران (این این آئی)ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے گذشتہ سال جولائی میں حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ امریکا کی عاید کردہ پابندیوں کے خلاف یورپ کی کوششوں پر کوئی زیادہ انحصار نہ کرے کیونکہ یورپی ممالک ایران کو تحفظ مہیا نہیں کرسکیں گے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر کی ویب سائٹ پر ان کی کابینہ کے اجلاس میں نو ماہ پرانی یہ تقریر جاری کی گئی ہے۔
تب ایرانی صدر حسن روحانی یورپی ممالک کے ساتھ مل کر جوہری سمجھوتے کو بچانے کے لیے کوشاں تھے مگر علی خامنہ ای ان کاوشوں کے بارے میں کوئی زیادہ پْرامید نہیں تھے۔انھوں نے کہا تھا کہ یورپی فطری طور پر یہ کہیں گے کہ وہ اپنے پیکج کے ذریعے ایرانی مفادات کا تحفظ کررہے تھے لیکن ایرانی حکومت کو اس کو مرکزی ایشو نہیں بنانا چاہیے۔ان کی اس تقریر کی اشاعت سے ایک ہفتہ قبل ہی صدر حسن روحانی نے وزیر خارجہ جواد ظریف کا استعفا مسترد کردیا تھا۔امریکی تعلیم یافتہ جواد ظریف نے امریکا سمیت چھے بڑی طاقتوں کے ساتھ جولائی 2015ء میں کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد جوہری سمجھوتا طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال مئی میں ایران کے ساتھ طے شدہ اس جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر علیحدگی کا اعلان کردیا تھا اور نومبر میں اس کے خلاف دوبارہ سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔ وہ اپنے یورپی اتحادیوں پر بھی زور دے رہے ہیں کہ وہ ایران کو مشرقِ اوسط میں بْرے کردار سے روکنے کے لیے امریکا کا ساتھ دیں۔یورپی یونین کے رکن ممالک ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔اس یورپی بلاک نے اس سے پہلے بھی بعض اقدامات متعارف کرائے ہیں جن کی وجہ سے یورپی کمپنیا ں امریکی قدغنوں پر عمل درآمد کی پابند نہیں رہی ہیں۔مگر اس سمجھوتے کو بچانے میں جواد ظریف کی صلاحیت
کے حوالے سے خامنہ ای نے اپنے شکوک کا اظہار کیا تھا۔انھوں نے کہا کہ یہ ڈیل ایران کے کسی معاشی مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔انھوں نے یہ بھی پیشین گوئی کی تھی کہ یورپ کا ایران سے کاروبار کو امریکی پابندیوں سے تحفظ دینے کے لیے مجوزہ میکانزم بھی معاشی
مشکلات کا حل نہیں ہوسکتا۔انھوں نے کہا تھاکہ یورپی بْرے ہیں۔ وہ درحقیقت بْرے ہیں۔میں یورپیوں کے بارے میں بہت کچھ کہہ سکتا ہوں ،ان کی موجودہ پالیسیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی گذشتہ چند صدیوں کے دوران میں ظاہر کردہ شاطرانہ فطرت کے پیش نظر کہہ سکتا ہوں ۔