نئی دہلی(آن لائن) مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبد اللہ نے پاکستان پر بھارتی فضائی حملے کے دعوے کا بھانڈا پھوڑ دیا، سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے پیغام میں عمر عبد اللہ کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کی حدود میں حملہ کرنے کا دعویٰ مشکوک ہے، بھارت کی جانب سے جس علاقے پر حملے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، وہاں سال کے اس وقت کسی قسم کے کیمپ کا قائم ہونا ممکن نہیں۔دوسری جانب بھارتی دراندازی کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ
پاک بھارت کشیدگی پلوامہ واقعے سے شروع ہوئی۔وزیراعظم ، وزیرخارجہ اور پھر میں نے بھی پریس بریفنگ میں بتایا کہ پلوامہ واقعے سے متعلق تفصیلاً بتایا۔بے وقوف دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہوتا ہے۔دشمنی میں بھی بے وقوفی اور جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے وزیراعظم نے کہا کہ آپ نے حملہ کیا تو ہم سوچیں گے نہیں جواب دیں گے۔اس کے بعد میں نے بھی تین چیزیں کہیں تھیں۔21منٹس تک وہ پاکستان میں موجودگی کا دعویٰ کررہے ہیں۔ ترجمان پاک فوج نے خبردار کیا کہ اللہ پاک کی ذات سب سے بڑی ہے لیکن ہم ان کو کہتے ہیں کہ آئیں 21منٹس رہ کردکھائیں؟ انہوں نے کہا کہ ہماری پوری ایئرفورس ہروقت فضاء4 میں نہیں رہ سکتی۔ جنگ کی حالت میں زمینی ، فضائیہ اور بحری اپنے اپنے سیف گارڈزلیتی ہے۔ایئرفورس کی کشیدگی کے باعث معمول کی پٹرولنگ ہوتی رہی، کل رات بھی معمول کی پٹرولنگ جاری تھی۔ ریڈار سسٹم بھی ہمیں بتا رہا تھا کہ کس طرح وہ بارڈر کراس کرتے ہیں۔ پہلے بھی وہ بارڈر کے قریب آتے رہے ، لیکن اتنے نہیں آتے تھے کہ حدود کے اندر ہوں۔ سیالکوٹ اور لاہور سیکٹر میں خطرہ تھا، بہاولپور میں بھی خطرہ تھا۔ بھارت سیالکوٹ اور لاہور سیکٹر میں حملہ کرنا چاہتا تھا۔ریڈار پربھارتی طیاروں کی پہلی پوزیشن لاہور سیالکوٹ سیکٹر کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھی گئی۔ ہمارے ریڈار سسٹم نے پک کیا کہ ان کے طیارے مظفرآباد
سیکٹرمیں ہماری ایل او سی کوکراس کیا۔ وہاں پرجا کر ہماری ایئرفورس نے چیلنج کیا اور وہ واپس بھاگ گئے۔ بھارتی فضائیہ کی دراندازی سے کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا۔ جبہ کے مقام پر بھارتی فضائیہ نے 4 بم پھینکے اور بھاگ گئے۔اگر تو وہ اسٹرائیک کرتے تو پھر باقاعدہ لڑائی ہوتی۔ اگر ان کا ٹارگٹ ہمارے فوجیوں پر ہوتا تو فوجی یونیفارم میں ہوتے۔ بھارت پاکستانی فوجی تنصیب پرحملہ کرنے کا فیصلہ کرتا تووہ ایل اوسی کراس کییبغیرکرسکتا تھا۔ بھارت کا یہ مقصد نہیں تھا بلکہ
ان کا ٹارگٹ ایسی جگہ تھی کہ سویلین آبادی پر اٹیک کرتے تاکہ وہ دعویٰ کر سکتے کہ ہم نے دہشتگردوں کو مارا ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے 350 دہشتگرد مارے ہیں لیکن ان کا خون کا کوئی ڈیڈ باڈی تو وہاں موجود ہوتی؟ اگرکوئی انفرااسٹرکچرتباہ ہوتا تووہاں ملبہ ہوتا۔ کوئی ایک اینٹ بھی نہیں ٹوٹی۔ جھوٹ کے کوئی پاؤں نہیں ہوتے۔ جائے وقوعہ سب کیلئے کھلا ہے، وہاں جاکر تصدیق کی جاسکتی ہے۔ جھوٹ کے توکوئی پاؤں نہیں ہوتے۔انہوں نے پہلے بھی
اسٹرائیک کرکے جھوٹ بولا۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہم سوچیں گے نہیں جواب دیں گے۔ جبکہ میں نے کہا تھا کہ سرپرائز دیں گے۔ ہم انہیں سرپرائز دیں گے۔ ہم بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب ضرور دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایئرفورس کا پہلا کام حملے کو ناکام بنانا ہوتا ہے۔ ہماری ایئرفورس نے وہی کام کیا اور ان کے حملے کو ناکام بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے ثابت کیا ہے کہ وہاں جمہوریت نہیں ہے۔ لیکں ہمارے ہاں جمہوریت ہے ہمارے یہاں اتفاق رائے ہے۔ بھارتی جارحیت کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں اور عوام متحد ہیں۔ ہم نے خطے میں امن کیلئے قربانیاں دیں ہیں۔