استنبول(این این آئی) ترکی نے ایک جنگل میں مبینہ طور پر قتل کیے گئے صحافی جمال خاشقجی کی لاش کی تلاش کا آغاز کردیا ہے۔عالمی میڈیا کے مطابق ترکی نے سعودی صحافی کے مبینہ قتل اور لاش کے ٹکڑے کر کے استنبول کے باہر گھنے جنگل یا کھیتوں میں چھپائے جانے کی اطلاعات کے بعد جنگل میں لاش کی تلاش کا آغاز کردیا ہے۔ترکی کی تحقیقاتی ٹیم کو لاپتہ صحافی کے مبینہ قتل سے متعلق اہم شواہد ملے تھے۔
جبکہ تازہ شواہد میں جمال خاشقجی کی لاش کو گھنے جنگل یا کھیت میں ٹھکانے لگائے جانے کے اشارے ملتے ہیں جس پر تحقیقات کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا ہے۔ترکی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ تحقیقاتی ٹیم نے سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے اْن مشتبہ سعودی ایجنٹس کی شناخت کرلی ہے جن پر جمال خاشقجی کو قتل کرنے کا شک ہے۔ ان ایجنٹس میں ایک ولی عہد محمد بن سلمان کا قابل اعتماد ساتھی بھی شامل ہے۔ترکی کی تحقیقاتی ٹیم کو حاصل ایک آڈیو ریکارڈنگ میں استنبول کے سعودی قونصل خانے کے قو نصل جنرل محمد ال اْطیبی کی آواز سنائی دیتی ہے جس میں وہ مبینہ طور پر ریاض سے آنے والے ایجنٹس کو چیختے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب باہر جا کر کرو، تم مجھے مشکل میں ڈال دو گے۔ترکی حکام نے یہ آڈیو ریکارڈنگ دورے پر آنے والے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو بھی سنائی جو ریاض کا دورہ کرنے کے بعد لاپتہ صحافی سے متعلق معلومات کے حصول کیلئے استنبول پہنچے تھے۔ترکی کی تفتیشی ٹیم نے سعودی قونصل خانے اور قونصل جنرل کی رہائش گاہ سے حاصل کیے گئے نمونوں کو جمال خاشقجی کے ڈی این اے سے موازنہ کرنے کے لیے فورنزک لیب بھیج دیا ہے۔ادھر انسانی حقوق کی تنظیموں نے ترکی کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ لاپتہ صحافی کے قتل سے متعلق تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ سے مدد سے طلب کرے اور اس معاملے کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچائے۔دوسری جانب سعودی عرب جمال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق اپنے سابق موقف پر قائم رہتے ہوئے اب تک کی تحقیقات اور خدشات کو بے بنیاد اور جھوٹ قرار دے چکا ہے جب کہ حقائق کا کھوج لگانے کے لیے اپنے تعاون کی پیشکش پر بھی قائم ہے۔واضح رہے کہ 2 اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں لاپتہ ہوجانے والے شاہی خاندان کے ناقد صحافی کے قتل ہوجانے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے اور اس معاملے پر کشیدگی اور تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔