غزنی (مانیٹرنگ ڈیسک)طالبان کا افغانستان کے تاریخی شہر غزنی پر حملہ، قبضے کا اعلان، افغان حکومت کی جانب سے اطلاعات کی تردید، حملے میں 140سے زائد سکیورٹی اہلکار ہلاک۔ تفصیلات کے مطابق طالبان نے افغانستان کے تاریخی شہر غزنی پر حملہ کر دیا ہے اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ طالبان جنگجوئوں کی مسلسل کئی گھنٹوں سے لڑائی جاری ہے۔ طالبان کے
غزنی شہرپر حملے میں 140سے زائد سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں اورطالبان کی جانب سے شہر پر قبضے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ طالبان کے مطابق انہوں نے پولیس ہیڈکوارٹر اور فوجی چھائونی پر قبضہ کر لیا ہے تاہم افغان حکام نے اس بات کی تردید کی ہے کہ طالبان جنگجو غزنی شہر پر قابض ہو چکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کی جانب سے علی الصبح غزنی شہر پر حملہ کیا گیا اور طالبان جنگجو چار اطرف سے غزنی شہر میں داخل ہوئے اور انہوں نے قبضے کیلئے لڑائی کا آغاز کیا۔طالبان حملے اور سکیورٹی فورسز کیساتھ گھمسان کی جنگ کے باعث غزنی اور کابل کے درمیان زمینی راستہ منقطع ہو چکا ہے اور ہائی وے پر ہر طرف کی ٹریفک معطل ہے۔ غزنی سے منتخب ہونیوالے صوبائی اسمبلی کے رکن حمید نوروزی کا کہنا ہے کہ طالبان کا حملہ انتہائی شدید ہے اور اگر کابل حکومت کی جانب سے کمک نہ پہنچی تو طالبان کسی بھی وقت شہر پر قابض ہو سکتے ہیں جبکہ پولیس چیف فرید مشال نے طالبان کے شہر میں داخل ہونے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئےکہا ہے کہ طالبان شہر میں داخل ہونے میں ناکام ہو چکے ہیں اور شہر پر افغان سکیورٹی فورسز کا مکمل کنٹرول ہے تاہم پولیس چیف کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں طالبان جنگجوئوں کے ساتھ جھڑپوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمزکی رپورٹ میں طالبان کے شہر کے
بڑے حصے پر اپنا قبضے کی تصدیق کی گئی ہے ۔گورنر غزنی نے طالبان حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ درست ہے کہ طالبان نے اچانک حملہ کیا ہے تاہم ان کا پورے شہر پر قبضہ نہیں ہو سکا اور نہ ہی ہم انہیں ایسا کرنے دینگے۔ دوسری جانب طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان نے شہر کے تمام حصوں پر قبضہ جمالیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ
سینکڑوں مجاہدین غزنی شہر میں داخل ہوئے اورپولیس ہیڈ کوارٹرز اور تمام 6 پولیس ڈسٹرکٹس پر قبضہ کرلیا ۔ طالبان جنگجوؤں نے بالا حصار کی اہم ترین فوجی چھاؤنی بھی اپنے قبضے میں کرلی ہے۔واضح رہے کہ اگر طالبان کے غزنی شہر پر قبضے کے دعوے کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ طالبان کی جانب سے چند سالوں میں حاصل کی گئی بہت بڑی کامیابی قرار دی جا سکتی ہے۔
غزنی شہر کو اسلامی تاریخ میں انتہائی اہمیت حاصل ہے، جبکہ موجودہ حالات میں اس کی دفاعی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ کابل پر قبضے کیلئے غزنی پر قبضہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور ماضی میں طالبان کی جانب سے اس شہر پر قبضے کے بعد کابل فتح کیا گیا تھا۔یہاں یہ بات بھی قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہو گی کہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے اہم اسلامی کردار اور ہیرو محمود غزنوی کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا اور ان کا مزار آج بھی اسی شہر میں ہےجبکہ برصغیر پاک و ہند میں شمع توحید اور رسالت کی روشنی پھیلانے والے لاہور میں مدفون عظیم بزرگ داتا گنج بخش علی ہجویری بھی اسی شہر میں پیدا ہوئے تھے اور آپؒ کے والد محترم عثمان علی ہجویریؒ کا مزار آج بھی غزنی شہر میں موجود ہے۔