نئی دہلی (آن لائن)دنیا میں ایٹمی پروگراموں پر نظر رکھنے والے امریکہ کے جوہری ماہرین نے کہا ہے کہ بھارت اپنے جوہری ہتھیاروں کی مسلسل جدید کاری اور توسیع کر رہا ہے اور اس کی جوہری تیاریوں کے نشانے پر اب پاکستان نہیں بلکہ چین ہے۔جمعرات کو امریکی ماہرین کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ بھارت اب طویل فاصلے تک مار کرنے والا ایک ایسا جوہری میزائل بنانے میں مصروف ہے،جس سے وہ جنوبی بھارت سے
چین کے کسی بھی علاقے کو ہدف بنا سکتا ہے۔بھارت کے بارے اندازہ ہے کہ اس نے جوہری بم بنانے والی تقریباً 600 کلو گرام پلوٹونیم تیار کر لی ہے۔امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق جوہری سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اتنی پلوٹونیم ڈیڑھ سو سے 200بم بنانے کے لیے کافی ہے۔ماہرین کے مطابق جوہری بم گرانے والے جنگی جہازوں اور میزائلوں کے بارے میں دستیاب معلومات کی بنیاد پر ہمارا یہ اندازہ ہے کہ بھارت نے 120 سے 130 کی تعداد میں ایٹم بم بنائے ہیں۔دوسری جانب بھارت مختلف فاصلوں تک جانے والے کئی جوہری صلاحیت والے میزائلوں کی تیاری میں مصروف ہے اور انھیں جوہری بموں سے لیس کرنے کے لیے بھارت کو مزید بم بنانے ہوں گے۔ممبئی کے قریب دھرووا ری ایکٹر میں پلوٹونیم تیار کی جاتی ہے اب وہ پلوٹونیم کے لیے مبینہ طور پر 2اضافی ری ایکٹر تعمیر کر رہا ہے۔غیر ملکی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ہند کی ریاست تمل ناڈو میں قائم کلاپکّم جوہری تنصیب میں اندرا گاندھی سینٹر فار اٹامک ریسرچ میں ‘فاسٹ بریڈر ری ایکٹر’ کی تعمیر سے مستقبل میں جوہری بم میں استعمال ہونے والی پلوٹونیم تیار کرنے کی بھارت کی صلاحیت میں کافی اضافہ ہو گا۔امریکہ کے جوہری ماہرین نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ انڈیا کا پروگرام روایتی طور پر پاکستان کو جوہری
حملے سے روکنے کے گرد مرکوز رہا ہے لیکن اب وہ جس نوعیت کی جوہری توسیع اور جدید کاری کر رہا ہے اس سے واضح عندیہ ملتا ہے کہ اس کی حکمت عملی اب چین پر مرکوز ہو رہی ہے۔ایک محقق کا خیال ہے کہ چین کے کسی جوہری حملے کا یقینی طور پر جواب دینے کی اہلیت حاصل کرنے کے لیے بھارت آنے والے دنوں میں اور زیادہ کارگر اور وسیع حکمت عملی اختیار کرے گا۔بھارت نے میزائل اگنی۔5 کو اپنے یوم جمہوریہ کی پریڈ میں
شامل کیا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ 5ہزار کلومیٹر تک وار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ہینز ایم کرسٹینسین اور رابرٹ ایس نوریس نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ جوہری بم گرانے کے لیے بھارت کے پاس اس وقت سات طرح کے دفاعی نظام ہیں۔ ان میں 2جنگی طیارے جیگوار اور میراج 2000 ہیں۔ روسی ساخت کے سوخوئی اور مگ 27 کے بارے میں بھی کئی ماہرین کا خیال ہے کہ انھیں بھی ایٹمی ہتھیار کے لیے استعمال کیا
جا سکتا ہے لیکن کا اس کا امکان کم ہے۔اس کے علاوہ بھارت نے مختلف فاصلوں تک جانے والے زمین سے زمین پر مار کرنے والے چار بیلسٹک میزائل بنا رکھے ہیں۔ ایک بیلسٹک میزائل سمندر کے نیچے آبدوز سے لانچ کیا جاتا ہے۔ پرتھوی۔2، اگنی۔1، اگنی۔2 اور اگنی۔3 جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت والے میزائل ہیں اور یہ پہلے ہی انڈین فوج کی کمان میں ہیں۔انڈیا اگنی۔4 کے کئی تجربے کر چکا ہے اور یہ جلد ہی استعمال میں آ جائے گا۔
یہ بیلسٹک میزائل ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کی دوری تک کسی ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ انڈیا کے شمال مشرقی خطے میں اسے نصب کیے جانے سے بیجنگ اور شنگھائی سمیت پورا چین اس کی زد میں ہو گا۔دفاعی تحقیق کا ادارہ ڈی آر ڈی او 5000 کلومیٹر کی دوری تک وار کرنے والا بین براعظمی بیلسٹک میزائل اگنی 5 بھی تیار کر رہا ہے۔ حملے کے لیے اضافی فاصلے کی صلاحیت سے اگنی۔5 کو بھارت کی جنوبی ریاستوں میں تعینات
کیا جا سکتا ہے،جہاں سے وہ چین کے کسی بھی خطے کو ہدف بنا سکتا ہے اور ساتھ ہی وہ چین کے جوابی وار سے بھی کافی دور ہو گا۔اس طرح کی بھی اطلاعات ہیں کہ بھارت نے اگنی۔6 پر بھی کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں ہیں۔ لیکن حکومت کے پریس انفارمیشن بیورو کی ویب سائٹ پر شائع ایک مضمون میں دعوی کیا گیا تھا کہ یہ میزائل 8000 سے 10000 کلومیٹر تک پرواز کر سکتا ہے اور اسے آبدوز اور زمین دونوں جگہ سے لانچ کیا جا سکے گا۔