کیپ ٹاؤن(مانیٹرنگ ڈیسک) جنوبی افریقہ کا شہر کیپ ٹاؤن دنیا کا پہلا بڑا شہر بن گیا ہے جہاں سے جدید دور میں پینے کے پانی کی کمی واقع ہو گئی ہے،میڈیا رپورٹس کے مطابق کیپ ٹاؤن آئس برگ کی چوٹی کی مانند ہے جس کا صرف ایک حصہ پانی سے باہر اور نو حصے اندر ہوتے ہیں۔2015 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیجنگ کا 40 فیصد پانی اس قدر آلودہ ہے کہ پینا تو درکنار، زرعی اور صنعتی مقاصد کے لیے بھی کارآمد نہیں۔
قاہرہ شہر کے اندر سے بہنے والا دریائے نیل نے ویسے تو ہزاروں برس سے تہذیبوں کی آبیاری کی ہے، لیکن اب اس عظیم دریا کو شدید دباؤ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔نیل مصر کے صاف پانی کا 97 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے، لیکن اب یہ رہائشی اور زرعی فضلے سے آلودہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔روس میں مجموعی طور پر تازہ پانی کا بہت بڑا ذخیرہ پایا جاتا ہے، لیکن سوویت دور میں کی جانے والی زرعی توسیع کی وجہ سے اسے بھی آلودگی کا سامنا ہے۔ماسکو کا 70 فیصد پانی زمین کی سطح سے حاصل ہوتا ہے، جو زیادہ آسانی سے آلودہ ہو جاتا ہے۔ترکی کو مجموعی طور پر پانی کی کمی کا سامنا ہے اور ماہرین کہتے ہیں کہ 2030 تک یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کر لے گا۔ لندن میں بھی پانی کی فراہمی دباؤ کا شکار ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ وہاں بہت بارش ہوتی ہے، لیکن دراصل لندن میں بارش کی مقدار پیرس اور نیویارک کے مقابلے پر کم ہے اور یہاں کا 80 فیصد پانی دریاؤں سے آتا ہے۔گریٹر لنڈن اتھارٹی کے مطابق 2025 تک شہر میں پانی کم پڑنا شروع ہو جائے گا اور یہ مسئلہ 2040 تک ’سنگین شکل‘ اختیار کر لے گا۔لگتا ہے کہ لندن میں جلد ہی ربڑ کے پائپوں کے استعمال پر پابندی لگنے والی ہے۔ جنوبی افریقہ کا شہر کیپ ٹاؤن دنیا کا پہلا بڑا شہر بن گیا ہے جہاں سے جدید دور میں پینے کے پانی کی کمی واقع ہو گئی ہے،میڈیا رپورٹس کے مطابق کیپ ٹاؤن آئس برگ کی چوٹی کی مانند ہے جس کا صرف ایک حصہ پانی سے باہر اور نو حصے اندر ہوتے ہیں