نئی دہلی /لندن(آئی این پی) بھارت نے ایک بار پھر افغانستان کی ایئرفورس کے ٹرانسپورٹ طیاروں اور خراب پڑے ہیلی کاپٹرز کی مرمت کیلئے غور شروع کردیا اور وہ اس حوالے سے کابل کے سگنلز کا انتظار کر رہا ہے، ماضی میں نئی دہلی اور کابل کی فوجی قربتوں نے پاکستان کو قدرے تنگ کیا تھا۔برطانوی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کابل میں بھارتی سفیر مان پریت ووہڑا کا کہنا ہے نئی دہلی افغانستان کے سوویت یونین
ساختہ خراب پڑے ایم آئی 35 ماڈل کے 11 ہیلی کاپٹرز اور 7 سفری طیاروں کے نئے آلات خریدنے اور ان کی مرمت کے لیے تقریبا 50 ملین امریکی ڈالر خرچ کرے گا۔ایک انٹرویو میں بھارتی سفیر کا کہنا تھا کہ نئی دہلی دیکھ رہا ہے کہ وہ کس طرح کابل کی مدد کر سکتا ہے، کیوں کہ افغانستان ایئر فورس کے خراب ہیلی کاپٹرز اور ٹرانسپورٹ طیاروں کی بہت بڑی تعداد ہے، جن کے آلات بھی اپنی مدت پوری کرچکے ہیں۔بھارتی سفیر مان پریت ووہڑا کے مطابق نئی دہلی مجوزہ تجویز کی حتمی لاگت معلوم کرنے کے بعد آئندہ چند ماہ میں اس کی منظوری دے دیگا۔واضح رہے کہ افغانستان ایئر فورس کے زیادہ تر طیارے سوویت یونین دور کے ہیں، مگر بعد ازاں روس پر مغرب کی جانب سے پابندیوں کے باعث افغانستان کو فوجی مدد فراہم نہیں کی جاسکی، جس وجہ سے طیارہ اڑنے کے قابل نہیں رہے۔بھارت ایسی پابندیوں میں قید نہیں ہے، مگر 2015 میں کابل کو 4 حملہ آور ہیلی کاپٹرز کی فراہمی کے بعد نئی دہلی اس طرح کابل کی براہ راست فوجی مدد سے گریزاں ہے۔بھارت کا موقف ہے کہ ان کے پاس وسائل نہیں ہے، تاہم وہ افغانستان کی تعمیراتی مدد کے لیے کہتا رہا ہے۔بھارتی سفیر کے مطابق مجوزہ معاہدے کے تحت بھارت خراب طیاروں کی مرمت کے لیے روس یا سوویت یونین کی ان سابقہ ریاستوں کو ادائیگیاں کرے گا، جہاں وہ طیارے تیار ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ اس حوالے سے بھارتی سفیر اور افغان ایئر چیف کے درمیان آئندہ ہفتے ملاقات طے ہے۔دوسری جانب روس کی فیڈرل سروس ملٹری نے طیاروں کی مرمت کے لیے تکنیکی مدد کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کوئی جواب نہیں دیا۔بھارت افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات کے مزے لے رہا ہے، جب کہ نئی دہلی اور کابل اپنے مشترکہ پڑوسی ملک پاکستان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین استعمال کرنے والے اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا۔جب کہ اسلام آباد بھی پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے پر ماضی میں نئی دہلی کو خبردار کر چکا ہے۔بھارت طالبان کے خلاف جنگ میں افغانستان کے سب سے بڑے اتحادیوں میں سے ایک رہا ہے، اور ہزاروں افغان فوجیوں کو تربیت فراہم کر چکا ہے، مگروہ حال میں روس کی قیادت میں ہونے والے امن مذاکرات کے پہلے مرحلے میں شامل نہیں تھا۔افغانستان اور امریکا کے حکام کو پریشانی ہے کہ روس اور طالبان کے درمیان تعلقات کی وجہ سے سیکیورٹی صورتحال مزید پیچیدہ ہوسکتی ہے،
جب کہ ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کا سائیڈ لائین ہوجانا مستقبل کے لیے خطرہ ہوسکتاہے۔ماسکو کا مقف ہے کہ شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے اور امن مذاکرات میں حوصلہ افزائی کی وجہ سے طالبان سے تعلقات قائم کیے گئے ہیں۔روسی حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکی اور افغان حکام کے مطابق افغانستان میں داعش کے جنگجو بڑھ رہے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے افغان فوج کے پیچھے امریکی فوج کا ہونا کافی نہیں ہے۔بھارتی سفیر نے طالبان کو ملک کے لیے خطرہ قرار دیتے دلیل پیش کی کہ آئندہ ماہ اپریل میں ہونے والے امن مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں بھارت کابل کے پیچھے ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت، افغانستان کا دیرینہ اتحادی رہا ہے، گزشتہ برس بھارت نے افغانستان کے لیے اضافی ایک ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تھا، جب کہ 300 ملین ڈالر کی لاگت سے ہائڈرو الیکٹرک ڈیم کی تعمیر مکمل کی تھی۔