واشنگٹن(آئی این پی) ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بجٹ میں کمی کے باعث افغانستان کیلئے امریکا کے خصوصی نمائندے جیسی اہم سفارتی پوزیشن تحلیل ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق سفارتی ذرائع نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بجٹ میں کمی کے باعث افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے جیسی اہم سفارتی پوزیشن تحلیل ہوسکتی ہے، جو خطے میں امن کی بحالی کے
سلسلے میں خاص اہمیت کی حامل ہے۔ذرائع نے امریکی میڈیا اداروں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے بجٹ میں 28 فیصد کٹوتی، امریکی اتحادیوں کو دی جانے والی غیر ملکی امداد کو متاثر کرے گی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ مالی سال 19-2018 کے بجٹ میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی کمی محکمہ خارجہ کے سائز کو بھی کم کرنے کا باعث بنے گی۔امریکی حکومت میں تقرریوں، تبادلوں اور معطلی کے حوالے سے رپورٹ کرنے والے اخبار شکاگو ٹریبیون کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھی اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ خصوصی نمائندوں کی پوزیشنز کو ختم کیا جائے یا نہیں، اگر یہ تجاویز منظور ہوجاتی ہیں تو اس سے اہم خطوں میں اور اہم مسائل کے حوالے سے تعینات سفارتی عملہ متاثر ہوگا، جن میں ماحولیاتی تبدیلی اور مسلم کمیونٹیز شامل ہیں۔اخبار شکاگو ٹریبیون نے مزید لکھا کہ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت کا عہدہ سنبھالے دو ماہ مکمل ہوچکے ہیں تاہم بہت سی اہم نیشنل سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی کی پوزیشنز ابھی تک خالی پڑی ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ(اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ)میں جو 2 سب سے اہم پوزیشنز خالی ہیں، ان میں پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے اور جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ کے عہدے شامل ہیں۔نئی انتظامیہ کے چارج سنبھالتے ہی گذشتہ اسسٹنٹ
سیکریٹری نیشا بسوال نے عہدہ چھوڑ دیا تھا، جبکہ 17 نومبر 2015 سے 17 نومبر 2016 تک خدمات سرانجام دینے والے پاکستان اور افغانستان کے لیے گذشتہ خصوصی نمائندے رچرڈ اولسن کی جگہ ایک قائمقام نمائندے لورل ملر نے چارج سنبھالا تھا۔اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق، ‘خصوصی نمائندے کا کردار خطے میں امریکی اسٹریٹجک مقاصد کے سلسلے میں نیٹو، اہم دوستوں، اتحادیوں اور دیگر مدد فراہم کرنے والوں کے درمیان کوآرڈینیشن برقرار رکھنا ہے’۔2009 میں اس عہدے کے قیام کے وقت یہ پوزیشن سنبھالنے والے ڈین فیلڈمین کے مطابق اس عہدے کا مقصد افغانستان میں امن کی بحالی کے سلسلے میں امریکی فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سفارت کاری کو یکجا کرنا تھا۔شکاگو ٹریبیون میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں ان کا کہنا تھا، ‘افغانستان کے مسئلے کا طویل المدتی حل نکالنے کے لیے امریکا کی جانب سے جامع فوجی اور سفارتی قیادت کی ضرروت ہے’۔انھوں نے مزید لکھا کہ خصوصی نمائندے کا کام اس خطے کے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں مسئلے کے طویل المدتی حل کی جانب جایا جاسکے اور اس
سب کے لیے سفارت کاری ہی نہیں بلکہ ایک بااختیار، قابل بھروسہ اور تجربہ کار امریکی سفارت کار کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔تاہم امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ان باتوں کا ٹرمپ انتظامیہ پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا، جو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سائز میں کمی کرنا چاہتی ہے۔ٹرمپ کے مشیروں کا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے کی ذمہ داریاں بھی جنوبی ایشیا کے لیے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ہی سرانجام دے سکتا ہے۔دوسری جانب جنوبی، وسطی اور مشرقی ایشیا کے اسسٹنٹ سیکریٹریز کے عہدوں کو یکجا کرنے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں اور اگر یہ تجاویز منظور ہوجاتی ہیں تو نئے اسسٹنٹ سیکریٹری کو ایک ایسے علاقے
کو دیکھنا ہوگا جس کی سرحدیں روس سے جاپان تک پھیلی ہوئی ہوں گی اور انھیں 3 بڑے ممالک چین، ہندوستان اور انڈونیشیا ہی نہیں بلکہ امریکا کے قریبی اتحادیوں جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ بھی کام کرنا ہوگا۔جنوبی، وسطی اور مشرقی ایشیا کے عہدوں کے انضممام سے اسسٹنٹ سیکریٹری کو جزیرہ نما کوریا اور پاک-افغان خطے کے معاملات کو بھی دیکھنا پڑے گا، یہی وجہ ہے کہ تھنک ٹینکس اور امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ انضمام ممکن نہیں ، تاہم پاک-افغان خطے کے خصوصی نمائندے کے دفتر اور جنوبی اور وسطی ایشیا بیورو کے انضمام کے امکانات موجود ہیں۔