اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک)ایران کی جوہری توانائی ایجنسی کے چیئرمین اور سابق وزیرخارجہ علی اکبر صالحی نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران اور مغرب کے درمیان مذاکرات تہران کے جوہری پروگرام پر سمجھوتے سے قبل بھی جاری رہے ہیں۔ امریکا اور ایران کے درمیان خفیہ مذاکرات کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی سرپرستی حاصل تھی جبکہ سابق صدر محمود احمدی نڑاد مغرب سے مذاکرات کے حامی نہیں تھے۔ایران میڈیا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیرخارجہ نے انکشاف کیا کہ سپریم لیڈر نے مغرب سے خفیہ مذاکرات میں یہ شرط رکھی تھی کہ یہ مذاکرات وزراء4 خارجہ کی سطح پر نہیں ہونے چاہئیں۔ نیز ان میں سیاست اور جوہری پروگرام کے علاوہ اور کوئی موضوع شامل نہ کیا جائے۔علی اکبر صالحی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکا اور ایران کے درمیان خفیہ بات چیت کئی سال پرانی ہے۔ اس وقت محمود احمدی نژاد صدر مملکت تھے۔ ان کا خیال تھا کہ امریکا کیساتھ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ تم لوگ غلطی کررہے ہو تو تاہم انہوں نے زیادہ مخالفت نہیں کی اور نہ ہی مجھے مذاکرات کی ترغیب دی۔سابق ایرانی وزیرخارجہ نے امریکا کے ساتھ خفیہ بات چیت کے انکشافات کے دوران یہ بھی بتایا ان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے امریکی عہدیداروں میں ایک کا نام ’مونیز‘ تھا جو جوہری توانائی کا ماہر خیال کیا جاتا تھا۔