واشنگٹن(این این آئی)امریکا کے سینئر قانون سازوں اور ان کے گواہوں نے کیپٹل ہل میں جمع ہوکر پاکستان سے ایک مرتبہ پھر سوال کیا کہ وہ امریکا کا دوست ہے یا دشمن۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان کی دہشت گردی ٗجوہری عدم پھیلاؤ، تجارت اور ایشاء پیسفک سے متعلق ذیلی کمیٹیوں نے مشترکہ طور پر اس سماعت میں شرکت کی جس کا مقصد اس بات کا تعین کرنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ کس طرح ڈیل کرنا ہے جو امریکا کا ایک پرانا اتحادی ہے تاہم اب کانگریس کے بہت سے اراکین کو اس پر اعتماد نہیں رہا۔سماعت میں ایک ذیلی کمیٹی کے چیئرمین ری پبلکنز کے ٹیڈ پو بھی شریک تھے جنھوں نے پاکستان کے حوالے سے اپنی ناگواری چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ٹیڈ پو نے اس موقع پر کہا کہ اس سماعت کا مقصد اراکین کو اس حوالے سے موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ پاکستان کے دہشت گرد گروپوں سے دیرینہ تعلقات کے بارے میں مزید جانیں اورانھیں امریکا اور اسلام آباد کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا موقع ملے۔افغانستان اور اقوام متحدہ میں امریکا کے سابق سفیر زالمے خالد زاد اْن 3 گواہوں میں شامل تھے جن سے کہا گیا کہ وہ قانون سازوں کو پاکستان اوراس کی پالیسیوں کے بارے میں وضاحت سے بتائیں۔دیگر 2 گواہان میں لانگ وار جرنل کے سینئر ایڈیٹر بل روگیو اور امیریکن یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ٹریشیا بیکن شامل تھے۔ایشیا اینڈ پیسفک کمیٹی کے سربراہ کانگریس مین میٹ سالمن کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد سے امریکا پاکستان پر اربوں ڈالرز خرچ کر چکا ہے اور 15 سال بعد بھی پاکستان کی فوج اورانٹیلی جنس ایجنسیاں دہشت گرد گروپوں سے رابطے میں ہیں اور خطے میں استحکام کیلئے نہایت معمولی کوشش کی گئی۔انھوں نے کہا کہ ہمیں امریکی مقاصد، امیدوں اور خطے کو دی جانے والی امداد کا قریبی جائزہ لینا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ اس سماعت میں ہم پاکستان سے متعلق اوباما انتظامیہ کی ناکام پالیسی پر تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ مستقبل کیلئے بہترین طریقے پر بحث کریں گے۔