ملائیشین عدالت نے ملک کے اہم سیاسی رہنما اور اپوزیشن لیڈر انور ابراہیم کی اپنے ملازم کے ساتھ جنسی زیادتی کےالزام میں سزا کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں 5 سال کے لیے جیل بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
ملائشیا کے قائد حزب اختلاف انور ابراہیم کے مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے اعلیٰ عدالت کے جج کا کہنا تھا کہ انور ابراہیم کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں جس کی بنا پر انہیں سزا سنائی گئی ہے جب کہ عدالت میں اپنی صفائی بیان کرتے ہوئے انور ابراہیم کا کہنا تھا کہ ان پر لگائے گئے الزامات نہ صرف بے بنیاد اور من گھڑت ہیں بلکہ اس کے پیچھے سیاسی سازش ہے جب کہ عدالت انہیں سزا دے کر انصاف کا قتل اور حکومت کے ساتھی کا کردار ادا کررہی ہے۔
دوسری جانب انور ابراہیم کی بیٹی نے برطانوی خبر رساں ادار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کے والد کی سزا سے نہ صرف اپوزیشن مزید مضبوط ہوگی بلکہ لوگ انتخابات میں اپنے جذبات کا اظہار بھی کریں گے جب کہ اس عدالتی فیصلے سے متعلق آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے پارٹی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ انور ابراہیم کے خلاف 2008 میں اپنے ملازم کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا لیکن 2012 میں ہائی کورٹ نے انہیں ٹھوس ثبوتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے الزامات سے بری کردیا تھا تاہم حکومت نے عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس پر انور ابراہیم کو دوسری بار 5 سال کے لیے جیل بھیجا گیا ہے۔ اس سے قبل 1998 میں انور ابراہیم کو کرپشن اور جنسی زیادتی کے مقدمات کے باعث نائب وزیر اعظم کے عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا اوراس کے باعث انہیں 6 سال کے لیے بھیجا گیا تھا جبکہ 2004 میں رہا ہونے کے بعد ان کی قیادت میں پہلی مرتبہ تین جماعتوں کے اپوزیشن اتحاد نے 2008 اور 2013 کے انتخابات میں شاندارکامیابی حاصل کی تھی۔