کراچی (این این آئی) کرونا وائرس کی وبا کے دوران کچھ نئی طرز کی ذہنی بیماریاں منظر عام پر آنا شروع ہوئی ہیں جس میں کچھ لوگوں میں تشدد سہنے کے بعد کی علامات یا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کی کیفیات، ڈپریشن کی ایک نئی قسم کا سامنے آنا اور نشہ آور ادویات کا حد سے زیادہ استعمال شامل ہے، کئی لوگوں میں کرونا وائرس کا خوف اور گھبراہٹ جبکہ لوگوں سے جسمانی
میل جول نہ رکھنے کا رجحان بھی غیر صحت مندانہ طور پر بڑھا ہوا دیکھا جا رہا ہے، کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے لوگوں کا رہن سہن تبدیل ہوا ہے جس کے نتیجے میں ذہنی مسائل بڑھ رہے ہیں اور اب ذہنی امراض کی شرح میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ذہنی امراض کی شرح خاص طور پر جنگ زدہ ممالک اور معیشت کی تباہی کا شکار ممالک جن میں شام، عراق، یمن، افغانستان اور کسی حد تک پاکستان شامل ہیں، میں بڑھ رہی ہے, عوام اور حکومتوں کو ذہنی صحت میں مزید سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتوں کو ذہنی صحت کے لیے مزید وسائل فراہم کرنی چاہیے جبکہ عوام کو اپنی ذہنی صحت کے لیے زیادہ وقت دینا چاہیے تاکہ وہ اور ان کے اہل خانہ ذہنی مسائل سے محفوظ رہ سکیں۔ان خیالات کا اظہار ملکی و غیر ملکی ماہرین نفسیات نے عالمی یوم ذہنی صحت 2020″ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے 2020″ کے موقع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔کانفرنس کا انعقاد پاکستان سائکیٹرک ایسوسی ایشن اور جناح اسپتال کراچی کے ڈپارٹمنٹ آف سائکیٹری نے جناح اسپتال کے نجم الدین آڈیٹوریم کیا تھا۔ بین الاقوامی کانفرنس سے ورلڈ سائکیٹرک ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر افضل جاوید، پاکستان کے نامور ماہر امراض نفسیات پروفیسر ہارون احمد، برٹش پاکستانی سائکیٹرک ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر قیصر عباس، برطانوی ماہر
امراض دماغ اور فارنسک سائکیٹری کی ماہر ڈاکٹر لنڈسے تھامسن، سابق پاکستان کرکٹر یونس خان، پاکستان سائکیٹرک ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر اقبال آفریدی، پروفیسر عنیزہ نیاز سمیت دیگر ماہرین نے خطاب کیا۔اس موقع پر پاکستان سائکیٹرک سوسائٹی کے صدر پروفیسر اقبال آفریدی نے پروفیسر ہارون احمد کے نام سے ریسرچ ایوارڈ جاری کرنے کا بھی اعلان کیا جس کے تحت
ہر سال ایک ایک ذہنی محقق کو بہترین مقالے پر ڈیڑھ لاکھ روپے کا نقد انعام دیا جائے گا۔پروفیسر ہارون احمد ریسرچ ایوارڈ کے لیے دس لاکھ روپے پروفیسر ہارون احمد دے رہے ہیں جبکہ پاکستان سائکیٹرک سوسائٹی بقیہ دس لاکھ روپے دے گی۔کانفرنس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ہارون احمد کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے نئی طرز کی ذہنی
بیماریاں اور کیفیات منظر عام پر آ رہی ہیں جس میں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر جیسی علامات یا تشدد سہنے کے بعد کی علامات سمیت ایک نئی طرز کا ڈپریشن شامل ہے، اس طرح کے ڈپریشن میں مبتلا لوگوں کا کام کرنے کا دل نہیں چاہتا اور ان میں تنہائی پسندی کی علامات اور کیفیات پائی جا رہی ہیں، کرونا وائرس کی وبا کے دوران نشہ آور اشیا کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے جو کہ ایک
تشویش ناک رجحان ہے، ان کا کہنا تھا کہ ذہنی بیماریاں چھپانے سے کوئی بھی شخص مضبوط نہیں ہو جاتا، ڈپریشن 70فیصد تک دماغ میں موجود کیمیائی اجزا کے عدم توازن سے پیدا ہوتا ہے جس کا علاج دواں کے ذریعے کامیابی سے کیا جاتا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں ذہنی امراض کو حکومتی توجہ ملنی چاہیے اور اس شعبے کو مزید وسائل فراہم کرنے کی ضرورت
ہے۔ورلڈ سائیکاٹرک ایسوسی ایشن کے نئے منتخب صدر پروفیسر افضل جاوید کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا کی 25 سے 30 فیصد آبادی ذہنی مسائل کا شکار ہے اور کرونا کی وبا کے بعد ان مسائل میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے، ان کا کہنا تھا کہ جنگ زدہ ممالک اور معیشت کی تباہی سے دوچار ممالک میں یہ شرح کئی گنا زیادہ ہے، پاکستان جیسے ممالک کو ذہنی امراض کے علاج اور خاتمے
کے لیے مزید وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے جہاں پر معاشی پریشانیوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے ذہنی امراض کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان سائٹرک ایسوسی ایشن کے صدر اور ڈین جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر پروفیسر اقبال آفریدی نے اس موقع پر کہا کہ نہ صرف حکومت بلکہ لوگوں کو ذہنی صحت میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے
تاکہ وہ ذہنی امراض سے محفوظ رہ سکیں۔ان کا کہنا تھا کہ ذہنی امراض میں سرمایہ کاری کا مطلب یہ ہے کہ عوام روزانہ ورزش کریں، اپنے آپ کو موٹاپے سے بچائیں، صحت مندانہ طرز زندگی اختیار کریں، موبائل اور کمپیوٹر اسکرین کو کم سے کم ٹائم دیں جبکہ سماجی رویوں میں اعتدال پیدا کرکے اپنے ذہنی صحت کو ٹھیک رکھیں۔اس موقع پر پروفیسر اقبال آفریدی کا کہنا تھا کہ اس وقت
کرونا وائرس کا خوف اور گھبراہٹ جیسی بیماریاں منظرعام پر آ رہی ہے جبکہ جسمانی فاصلے اختیار کرنے کی احتیاط نے بھی ایک ذہنی مرض کی صورت اختیار کر لی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ذہنی امراض میں مبتلا افراد کو بغیر کسی جھجک کے معالجین سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ یہ تمام بیماریاں قابل علاج ہیں اور انسان علاج کے بعد صحت مند زندگی
گزارنے کے قابل ہوجاتا ہے۔معروف پاکستانی کرکٹر اور سابق کپتان یونس خان نے اس موقع پر بتایا کہ ذہنی صحت کھلاڑیوں سمیت ہر انسان کے لئے جسمانی صحت کی طرح ہی ضروری ہے کیونکہ ایک ذہنی طور پر کمزور شخص فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے جس کے نتیجے میں وہ زندگی میں کامیابی حاصل نہیں کر پاتا۔