اسلام آباد۔۔۔۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نے شدت پسندی اور انتہا پسندی کے سدباب پر بات چیت کے لیے کل جماعتی کانفرنس طلب کر لی ہے۔وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق یہ کانفرنس بدھ کو وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں ہوگی جس میں دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل کو حتمی شکل دی جائے گی۔اس اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کی سربراہی میں قائم کی گئی قومی ایکشن پلان کمیٹی کی سفارشات پر غور کے بعد ان کی منظوری بھی دی جائے گی۔آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے لیے تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہوں کو دعوت نامے بھجوا دیے گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان ال پارٹیز کانفرنس میں شریک ہوں گے۔وزیر اعظم کی سربراہی میں قانونی ماہرین کا اجلاس بھی وزیر اعظم ہاؤس میں جاری ہے جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمات کو فوری طور پر نمٹانے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے۔اس اجلاس کے دوران وزیرِ اعظم پاکستان نے کہا ہے کہ قوم پشاور ، کوئٹہ اور واہگہ میں پیش آنے والے بربریت کے واقعات کو نہیں بھلائے گی۔انھوں نے تمام دہشت گردوں کے خلاف کسی رعایت اور امتیاز کے بغیر کارروائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔نواز شریف کہہ چکے ہیں اب آپریشن میں اچھے اور برے طالبان میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی جائے گی۔نواز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات کے ذمہ داران سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔اْدھر وزیر داخلہ کی سربراہی میں قائم کی گئی قومی ایکشن پلان کمیٹی کا اجلاس بھی پارلیمنٹ ہاؤس میں ہو رہا ہے جس میں ورکنگ گروپ کی جانب سے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے دی جانے والی سفارشات پر بات ہو رہی ہے۔میڈیا کو اس اجلاس کی کوریج کی اجازت نہیں دی گئی تاہم اجلاس میں موجود ایک سرکاری اہلکار کے مطابق کمیٹی کے مختلف اراکین کی جانب سے بھی تجاویز دی گئی ہیں جن میں فوجی عدالتوں کے قیام اور پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی اْن کی وطن واپسی کی تجاویز بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے تحفظ پاکستان آرڈیننس پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے دینی مدارس کے خلاف کارروائی کی سفارش کی کی گئی جو رجسٹرڈ نہیں ہیں اور اپنی آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ کروانے سے بھی گریزاں ہیں۔خیال رہے کہ یہ قومی ایکشن پلان کمیٹی گذشتہ ہفتے پشاور میں طالبان کے سکول پر حملے میں 141 افراد کی ہلاکت کے بعد قائم کی گئی تھی اور اسے ایک ہفتے میں سفارشات پیش کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ایک ہفتے کی یہ مدت بدھ کو ختم ہو رہی ہے۔۔