اسلام آباد: حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں دولت اسلامیہ سے تعلق کے شبے میں کچھ گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔
دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے داعش کی حمایت میں کی گئی چاکنگ سے تعلق کے شبے میں پولیس نے کچھ گرفتاریاں کی ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے گرفتار افراد کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ چالکنگ کے پیچھے چھپے عوامل اور مقاصد جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت نے باضابطہ طور پر داعش کے حوالے سے گرفتاریوں کا اعتراف کیا ہے، اس سے قبل گرفتاریوں کی کچھ اطلاعات منظر عام پر آئی تھیں لیکن یہ زیادہ تر غیر آفیشل ذرائع سے سامنے آئی تھیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ملک میں داعش کی موجودگی کو یکسر مسترد کردیا تھا۔
تاہم یکدم ملک کے مختلف علاقوں میں داعش کی حمایت میں کی گئی چاکنگ اور اس کی حمایت سے متعلق لٹریچر تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی تنصیبات کے قریب اس کے جھنڈے بھی نصب کر دیے گئے تھے جس سے سیکیورٹی حکام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔
دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ پاکستان تمام دہشت گردوں کے خلاف مکمل کارروائی کر رہا ہے اور ہم ہر سطح پر دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے چھ دہشت گردوں نے اکتوبر میں داعش میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اس کے سربراہ ابو بکر البغدادی کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی۔
سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے ٹوئٹر پر پیغام میں گرفتاریوں کا خیر مقدم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی ایس سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاری سے میرا پاکستان میں داعش کی موجودگی کے حوالے سے دعویٰ درست ثابت ہو گیا، ہمیں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مزید چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔
تسنیم اسلم نے بریفنگ میں مزید بتایا کہ وزارت خارجہ عرب ملکوں کے شاہی افراد کو شکار کے لیے جگہیں الاٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
حکومت نے رواں سال عرب ملکوں کے شاہی افراد کو عالمی سطح تحفظ فراہم کیے گئے پرندے تلور کے شکار کے لیے 29 لائسنس جاری کیے تھے تاہم اس فیصلے کو سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔
بلوچستان ہائی کورٹ نے شکار کی اجازت دیے جانے کا حکم نامہ منسوخ کردیا تھا جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے وزارت خارجہ کو شکار کے حوالے سے دی گئی خصوصی اجازت کی حامل دستاویزات جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
تاہم تسنیم اسلم نے وزارت کارجہ کے کردار کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شکار کے لیے علاقے کی الاٹمنٹ کی اجازت وزارت خارجہ امور کی جانب سے نہیں دی گئی تھی۔