اسلام آباد (نیوز ڈیسک)وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے کنٹری بیوٹری پنشن اسکیم باقاعدہ طور پر نافذ کر دی ہے، جس کے تحت ملازمین کو اپنی تنخواہ کا 10 فیصد پنشن فنڈ میں جمع کرانا ہوگا، جب کہ حکومت اس کے بدلے 12 فیصد حصہ فراہم کرے گی۔ اس طرح مجموعی طور پر 22 فیصد شراکت سے پنشن فنڈ تشکیل پائے گا۔یہ نیا نظام کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم رولز 2024 کے تحت متعارف کرایا گیا ہے، جو پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے مطابق جاری کیے گئے ہیں۔ یہ اسکیم والنٹری پنشن سسٹم رولز 2005 اور نان بینکنگ فنانس کمپنیز ریگولیشنز 2008 کے تحت ریگولیٹ کی جائے گی۔نئے ضوابط نے اگست 2024 کے اس نوٹیفکیشن کی جگہ لے لی ہے جس میں حکومت کی شراکت 20 فیصد مقرر کی گئی تھی۔
ابتدائی طور پر وزارتِ خزانہ نے سول حکومت اور مسلح افواج کے نئے بھرتی ہونے والے اہلکاروں کے لیے اس اسکیم کا اعلان کیا تھا۔اس کے مطابق، یکم جولائی 2024 سے بھرتی ہونے والے سول ملازمین، بشمول سول ڈیفنس کے اہلکار، اس نظام کے تحت آئیں گے، جب کہ مسلح افواج پر یہ اسکیم جولائی 2025 سے نافذ ہوگی۔حکومت نے مالی سال 25-2024 کے بجٹ میں اس فنڈ کے لیے 10 ارب روپے جبکہ 26-2025 کے لیے 4 ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے ہیں تاکہ نئے پنشن نظام کو سہارا دیا جا سکے۔اسکیم کا پس منظرذرائع کے مطابق، یہ نیا نظام آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی سفارش پر شروع کیا گیا ہے تاکہ پنشن کے بڑھتے ہوئے مالی بوجھ پر قابو پایا جا سکے۔
حکومت کے مطابق، پنشن کے اخراجات قومی خزانے کے لیے ایک سنگین مالی خطرہ بنتے جا رہے تھے۔یہ اسکیم موجودہ ملازمین پر لاگو نہیں ہوگی بلکہ مستقبل کے لیے پنشن اخراجات میں کمی اور مالیاتی پائیداری کو یقینی بنانے کے مقصد سے متعارف کرائی گئی ہے۔اعداد و شمار کے مطابق، وفاقی حکومت کے پنشن اخراجات مالی سال 25-2024 میں 10 کھرب 5 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے، جو گزشتہ سال کے 821 ارب روپے کے مقابلے میں تقریباً 29 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح، مسلح افواج کے پنشن واجبات 26-2025 میں 742 ارب روپے تک پہنچنے کی توقع ہے، جو 2023-24 کے مقابلے میں 32 فیصد زیادہ ہے۔سول ملازمین کی پنشن کے اخراجات بھی 243 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 6.6 فیصد اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔نظام کی تفصیلاتنئے قواعد کے مطابق، صرف مجاز پنشن فنڈ منیجرز ہی اس فنڈ کو چلانے کے مجاز ہوں گے۔ حکومت بطور آجر ملازم کی تنخواہ کا 12 فیصد حصہ اکاوٴنٹنٹ جنرل کے ذریعے جمع کرائے گی، جو ریکارڈ رکھنے اور فنڈز کی نگرانی کا ذمہ دار ہوگا۔ملازمین اپنی تنخواہ سے 10 فیصد حصہ خود جمع کریں گے، جو ریٹائرمنٹ سے قبل واپس نہیں لیا جا سکے گا۔
ریٹائرمنٹ پر وہ زیادہ سے زیادہ 25 فیصد رقم نکال سکیں گے، جب کہ باقی رقم والنٹری پنشن سسٹم رولز 2002 کے تحت کم از کم 20 سال یا 80 سال کی عمر تک سرمایہ کاری میں رکھی جائے گی۔تنخواہ کی سلپ میں ملازم اور آجر کے حصے سمیت کل جمع شدہ رقم کی تفصیل شامل ہوگی۔ وزارتِ خزانہ سالانہ بنیاد پر حکومت کے حصے کی رقم بجٹ میں مختص کرے گی اور صرف ان فنڈ منیجرز سے معاہدے کرے گی جو الیکٹرانک ٹرانسفر سسٹم استعمال کرتے ہوں۔معاہدوں میں ملازم کی وفات یا معذوری کی صورت میں انشورنس کوریج بھی شامل ہوگی۔ اس نظام کی نگرانی کے لیے وزارتِ خزانہ ایک نان بینکنگ فنانس کمپنی (NBFC) قائم کرے گی، جو اس کے باضابطہ قیام تک عبوری طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گی۔بنیادی مقصدیہ اسکیم روایتی ڈیفائنڈ بینیفٹ (Defined Benefit) نظام سے ہٹ کر ایک جدید ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن (Defined Contribution) ماڈل کی طرف قدم ہے۔ اس کا مقصد قومی مالیاتی نظام کو مستحکم بنانا اور مستقبل کے سرکاری ملازمین کے لیے ایک پائیدار اور محفوظ پنشن نظام فراہم کرنا ہے۔