واشنگٹن(این این آئی)امریکہ میں مقیم ایرانی خاتون کارکن مسیح علی نژاد نے کہا ہے کہ ایرانی حکومت نے بلاگر بیتا حقانی نسیمی کو فساد فی الارض کے الزام میں کمشاہ کے حراستی مرکز میں بھیج دیا ہے اور اس کے خاندان کو خدشہ ہے کہ حکومت اسے سزائے موت سنا دے گی۔میڈیارپورٹس کے مطابق ایرانی خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد 16 ستمبر کو شروع ہونے
والے مظاہرے 100 ویں دن میں داخل ہو گئے ہیں۔ ایرانی دارالحکومت تہران اور کرج، سنندج، اصفہان، مشہد، بندر عباس، اھواز، بابل اور دیگ شہروں کے کم از کم 6 علاقوں میں ہفتے کی شام بھی مظاہرے کئے گئے۔ایرانی انسانی حقوق کے کارکنوں کی ایجنسی کے مطابق حکام کی جانب سے شروع کیے گئے خونی کریک ڈان کے نتیجے میں کم از کم 506 مظاہرین مارے گئے، جن میں 69 نابالغ بھی شامل تھے۔ایک طرف ایران کے مختلف شہروں میں مظاہرے جاری ہیں۔ دوسری طرف ویڈیو کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بسیج میں لڑکیاں ولی عصرکے ہیڈ کوارٹرز کو آگ لگا رہی ہیں۔ درجہ حرارت میں بڑی کمی اور شدید سردی کے باوجود وسطی ایران کے شہر اصفہان اور دیگر شہروں میں برفباری کے دوران بھی مظاہرے کئے گئے۔ایرانی عدلیہ کے اعلان کے بعد کہ سپریم کورٹ نے ان دو مظاہرین کی اپیل منظور کر لی ہے جنھیں تحقیقات میں غلطیوں کی وجہ سے سزائے موت سنائی گئی تھی۔ عدالت نے اپیل کا فیصلہ واپس لے لیا اور احتجاجی کارکن محمد قبادلو کی سزائے موت کو منظور کر لیا۔ایران میں مظاہرین کا رخ مختلف چوکوں سے کرینوں کے ذریعے لوگوں کو پھانسی دینے کے میدانوں کی طرف ہوگیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایرانی حکومت چاہتی ہے کہ وہ مظاہرین کو ڈرا اور دھمکا کر ان کی آوازیں خاموش کر دے۔دریں اثنا اصلاح پسند سیاست دان اور سابق رکن پارلیمان حسین انصاری راد نے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے نام ایک کھلے خط میں خبردار کیا ہے کہ اگربنیاد پرست اصلاحات نہیں ہوئیں تو بڑا دھماکہ ہو سکتا ہے۔