اسلام آباد(آئی این پی )پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ پانی کی کمی والے ممالک میں تیسرے نمبر پر آگیا،ملک 2025 تک پانی کی کمی کا شکار ہو جائے گا،پانی کے ذخائر کم ہو کر ایک ہزارکیوبک میٹر فی کس رہ گئے ،قحط اور خشک سالی دستک دینے لگی، پانی کی کمی ایک سنگین مسئلہ ،تربیلا اور منگلا میں پانی ذخیرہ کرنیکی گنجائش کم۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق ایک زرعی ملک ہونے کے
ناطے پاکستان اپنا 90 فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال کرتا ہے جو غذائی تحفظ میں اہم کردار ادا کرتا ہے تاہم ملک کے آبی وسائل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ اس قیمتی اثاثے کو محفوظ رکھنے اور مستقبل میں خوراک کی قلت کو روکنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔ گزشتہ سال 19.2 فیصدکے مقابلے میں ملک کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 22 فیصدہے۔ ملک میں کم از کم 37.4 فیصد افرادی قوت زراعت کے شعبے سے منسلک ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے ریسرچ اسسٹنٹ محمد اعظم نے ویلتھ پاک سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ معیشت کا ہر پہلوتوانائی سے لے کر زراعت تک پانی کی دستیابی پر منحصر ہے جو اسے قومی سلامتی کا ایک اہم جزو بناتا ہے۔ پانی کے ذخائر کم ہو کر 1000 کیوبک میٹر فی کس رہ گئے ہیںاور پاکستان آنے والے سالوں میں بڑھتی ہوئی آبادی کو پانی تک رسائی دینے میں ناکام رہے گا۔ پانی تمام جانداروں کے زندہ رہنے کے لیے ایک ضرورت ہے جو اقتصادی ترقی اور صنعت اور زراعت کی توسیع کے لیے ضروری ہے۔
پانی کے وسائل کو بچانے کے لیے پاکستان نے نئے ڈیم کی تعمیر پر مطلوبہ توجہ نہیں دی ہے۔ اپنی آزادی کے بعد سے اس ملک نے صرف دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا ڈیم بنائے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ان ڈیموں کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوئی ہے۔ آبی وسائل کے جمود کے نتیجے میں فی شخص دستیاب پانی کی مقدار خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پانی کی کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کو دنیا کے سب سے زیادہ پانی کی کمی والے ممالک میں تیسرے نمبر پر رکھا ہے۔ رپورٹس کے مطابق پاکستان 2025 تک پانی کی کمی کا شکار ہو جائے گااورپانی کی مکمل قلت والا ملک بن جائے گا۔ اعظم نے کہاکہ اگرچہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کا پانی کا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہے جس کی وجہ سے وسیع پیمانے پر پانی کی کمی ہے۔ زراعت میں استعمال ہونے والے پانی کا تقریبا 60 فیصد نہروں، دریاوں اور زرعی کھیتوں میں ضائع ہو جاتا ہے۔
اگرچہ دنیا کی اوسط ذخیرہ کرنے کی گنجائش 40 فیصد تک پہنچ گئی ہے پاکستان اپنے سالانہ دریائی پانی کے بہا وکا صرف 10 فیصد تک ہی بچا سکتا ہے۔ دریائی پانی کی کمی کے باعث لوگ زیر زمین پانی استعمال کرنے لگے ہیں تاہم کسی بھی ریگولیٹری اداروں کی عدم موجودگی میں شہروں میں اندھا دھند اوور پمپنگ بھی زیر زمین پانی کی کمی کا باعث بنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی غیر موثر تقسیم اور بدانتظامی نے پانی کے تحفظ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
پانی کے تحفظ کی ضرورت کے بارے میں واپڈا کے 10 منصوبے جو 2023 اور 2029 کے درمیان مکمل ہوں گے، ان میں پانچ ڈیموں کی تعمیر بشمول دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم، تین ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے، ایک کینال، اور ایک پانی کی ترسیل کے منصوبے کے ساتھ ساتھ 10 شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پالیسی سازوں کو پانی کی موجودہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور پانی کی بحالی کی جدید ترین ٹیکنالوجیز کے ساتھ بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنا چاہیے۔