لاہور(نیوز ڈیسک)افسانہ نگار ی ،ڈرامہ نگاری اور صداکار ی میں منفرد مقام رکھنے والے درویش صفت دانشور اشفاق احمد اپنی ادبی تخلیقات کے ذریعے،عمر بھر دلوں اوردماغوں میں روشنیوں کے چراغ بوتے رہے۔ادب کےہر شعبے میں منفرد پہچان رکھنے والے اشفاق احمد نے 22اگست 1925 کوبھارتی شہر ہوشیار پور کے پٹھان گھرانے میں ا?نکھ کھولی ، بی اے تک تعلیم وہیں حاصل کی ،پاکستان ہجرت کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کیا،جہاں بانو قدسیہ سے کلاس فیلو والا انس،دوستی کے بعد محبت میں ڈھلا جو دائمی بندھن بن گیا۔ایم اے کے بعد اشفاق احمدنے بیرون ملک سے اطالوی،فرانسیسی زبانوں کیساتھ براڈکاسٹنگ کے ڈپلومے کیے۔1953ءمیں اشفاق احمد کا افسانہ” گڈریا“ ان کیلئے شہرت کا پیغام لایا،جس کے بعددنیائے ادب میں کامرانیاں اور عزت و شہرت سمیٹتےچلے گئے۔اردو علم ادب کا یہ سفر افسانہ نگاری، صداکاری،ڈرامہ نگاری تک بڑھتا گیا۔انہوں نے ایک محبت سو افسانے،حیرت کدہ ،کھیل تماشا ، توتا کہانی،من چلے کا سودا جیسے ادبی شاہکار تخلیق کئے،جن کی بدولت وہ کئی ایوارڈز کے ساتھ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے حقدار ٹھہرے۔ ریڈیو پروگرام ”تلقین شاہ“جس کا ہر جملہ دیپ مالا اور مخصوص طنزو مزاح تمام ہی طبقات میں ان کی پہچان بنا۔ان کی زندگی کا ا?خری دور ٹی وی پر بیٹھک اور زاویہ جیسے پروگرام سے مزین رہا،معاشرتی مسائل کا ذکرآتا،قصے کہانیاں بھی ہوتیں، تصوف اور فلسفے کے موتی بھی بکھرتے،ساتھ ہی اشفاق احمد کے اندرکینسر جیسا مرض بھی،چپکے چپکےپلتا رہااور 7 ستمبر 2004ءکو سب کا دوست اور خیرخواہ اشفاق احمد ہمیشہ کی نیند سو گیا۔ داستان سرائے کا دیا بجھ گیا مگربجھنے سے پہلے اردو ادب کے دامن کو چمکتے موتیوں کا خزانہ دے گیا۔