واشنگٹن(این این آئی)امریکی محکمہ خارجہ نے قطر کے دارالحکومت دوحا میں ایک امریکی وفد اور طالبان حکومت کے نمائندوں کے درمیان ملاقات کا انکشاف کیا ہے، جہاں انہوں نے ملک میں انسانی تباہی کا باعث بننے والے زلزلے کی روشنی میں امداد پر تبادلہ خیال کیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ امریکا نے انسانی امداد کے عمل میں
تحریک طالبان کی مداخلت پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔دو روزہ بات چیت میں افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ کی قیادت میں وفد نے امریکی امداد کے بارے میں بتایا جس میں امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی کی جانب سے متاثرہ آبادی کو پناہ گاہیں، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کی اشیا فراہم کرنے کے لیے 55 ملین ڈالر کی نئی امداد بھی شامل ہے۔دونوں وفود نے افغانستان کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے فراہم کی جانے والی انسانی امداد پر تبادلہ خیال کیا، جس میں اگست 2021 سے امریکا کی طرف سے فراہم کردہ 774 ملین ڈالر سے زیادہ بھی شامل ہے۔بیان کے مطابق دونوں فریقین نے خدمات کی فراہمی میں شفافیت کے بارے میں خدشات کو دور کرتے ہوئے ملک بھر میں بنیادی صحت کی دیکھ بھال تک بلا تعطل رسائی کو برقرار رکھنے کی اہم اہمیت پر اتفاق کیا۔طالبان نے اپنے اس عہد کی تجدید کی کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کو خطرے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
امریکی وفد نے افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر تحریک طالبان کی جاری پابندیوں پر بات کی۔بیان میں کہا گیا کہ امریکا افغان عوام کے مطالبات کی حمایت کرتا ہے کہ لڑکیوں کو اسکول واپس جانے کی اجازت دی جائے۔ خواتین کو کام کرنے کی اجازت دی جائے۔
ملک کی اقتصادی ترقی میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے، اور آزادانہ طور پر نقل و حرکت اور اظہار خیال کی آزادی دی جائے۔اگست 2021 میں تحریک طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے امریکا نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
افغانستان کے بیرون ملک موجود اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے اور مغربی بین الاقوامی امداد جس پر ملک بیس سال تک انحصار کرتا تھا روک دی گئی۔افغانستان اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے جب مختلف ممالک نے اس کے بیرون ملک جمع کیے گئے اثاثے منجمد کر دیے اور امداد بند کر دی۔ پابندیوں کی وجہ سے افغان کرنسی کی قدر گر گئی۔