پیر‬‮ ، 28 جولائی‬‮ 2025 

بادشاہ اور خوبصورت لونڈی

datetime 31  جنوری‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )پہلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا۔ وہ شکار کے ارادے سے نکلا تھا کہ اس دوران اس کی نظر ایک خوبصورت لونڈی پر پڑی اور بادشاہ پہلی نظر میں اس پر عاشق ہو گیا۔ لہٰذا اس نے اس لونڈی کو خریدا اور خدا کی قدرت کہ وہ لونڈی بیمار پڑ گئی۔ معالجوں کو طلب کیا گیا تاکہ لونڈی کا علاج معالجہ ممکن ہو سکے۔ معالجوں نے کہا کہ ہمارے پاس ہر مرض کا شافی علاج موجودہے

، لیکن انہوں نے ساتھ انشاء اللہ کہنا گوارا نہ کیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ رویہ پسند نہ آیااور اللہ تعالیٰ نے ان کے علاج کو اپنی شفا سے محروم رکھا اور ان کے علاج معالجے سے کچھ وصول نہ ہوا۔ بادشاہ کی حالت غیر ہونے لگی ادھر لونڈی بھی بیماری کی وجہ سے لاغر ہونے لگی۔ معالج علاج سے معذور ہو چکے تھے۔یہ جان کر بادشاہ نے مسجد کا رخ کیا اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہو گیااور اس کی تعریف و توصیف سر انجام دینے لگا اور رو رو کر اس سے فریاد کرنے لگا۔ رحمت خدواندی جوش میں آئی۔ ادھر بادشاہ بار گاہ الٰہی میں روتے روتے بے حال ہو کر نیند کی آغوش میں جا پہنچا تھا۔ خواب میں اسے یہ نوید سنائی گئی کہ ایک اجنبی شخص آئے گا اور وہ لونڈی کا علاج کرے گا اور اس کا علاج بفضل خدا جادو اثر ہو گا۔ بادشاہ اس اجنبی کا منتظر رہا، بالآخر متذکرہ اجنبی آن پہنچا۔ بادشاہ نے اس کا استقبال کیا۔بادشاہ نے اس اجنبی مہمان سے ملاقات کی اور عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آیا اور اس سے مدد کی درخواست کی۔ بادشاہ اس اجنبی کو بیمار لونڈی کے پاس لے گیا۔ اس نے لونڈی کا معائنہ کیااور یہانکشاف کیا کہ معالجوں نے اسے جو دوادارو دیا تھا وہ درست نہ تھا۔ کیونکہ وہ جسمانی طور پر درست تھی بلکہ دل کی بیماری میں مبتلا تھی۔ لونڈی کے مرض سے آشنائی حاصل کرنے کے بعد اجنبی نے بادشاہ سے کہا کہ میں تنہائی میں لونڈی کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا ہوں۔اجنبی نے اس سے دریافت کیا کہ وہ کس شہر سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے رشتہ داروں کے بارے میں دریافت کیا اور اس سے مختلف سوالات کرتا رہا۔ در حقیقت وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ لونڈی کس کے سامنے اپنے دل ہار چکی تھی۔ لونڈی کے ساتھ اجنبی کی بات چیت کے دوران اچانک کسی موڑ پر شہر سمر قند کا ذکر آیا۔ اس شہر کا نام سن کر لونڈی نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور اس کی آنکھوں سے اشک بہنے لگے۔اس نے اپنی داستان سناتے ہوئے کہا کہ اس شہر میں ایک تاجر نے مجھے ایک امیر کبیر سنار کے ہاتھ فروخت کیا جس نے مجھے چھ ماہ اپنے پاس رکھنے کے بعد دوبارہ فروخت کر دیا۔ اس تذکرے پر لونڈی کے چہرے پر زردی چھا گئی۔ اجنبی نے لونڈی سے اس سنار کا نام اور پتہ دریافت کیا اور اسے تسلی دی کہ فکر نہ کر تیرا مرض میں سمجھچکا ہوں۔ اب تیرا مرض انشاء اللہ رفع ہو جائے گا۔اجنبی نے لونڈی کے مرض کے بارے میں چند ایک حقائق بادشاہ کو بتا دیے اور بادشاہ سے کہا کہ کسی ایلچی کو سر قند روانی کیا جائے جو سنار کو انعام و اکرام کا لالچ دے کر دربار میں لائے تاکہ اس کو دیکھ کر

لونڈی کی جان میں جان آ جائے۔ بادشاہ نے دو ایلچی سمر قند روانہ کئے جو اس سنار تک جا پہنچے اور سنار کے فن کی تعریف کرنے لگی اور بادشاہ کی جانب سے کچھ انعام و اکرام اور سونا چاندی اسے پیش کیا اور اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا۔ وہ بیوی بچے کام کاج شہر اور گھر بار وغیرہ سب چھوڑ کر ان کے ساتھ چل پڑا۔اسے بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا۔ اس کی قدر و منزلت سر انجام دی گئی

اور اسے ڈھیروں سونا دے کر شاہی زیورات اور ظروف سازی کی ہدایت کی گئی۔ اجنبی نے بادشاہ کو مشورہ کیا کہ لونڈی اس سنار کے حوالے کر دی جائے۔ لہٰذا بادشاہ نے لونڈی سنار کے نکاح میں دے دی۔اس دوران اجنبی نے سنار کے لئے ایک ایسا شربت تیار کیا جس کے چھ ماہ کے استعمال کے بعد اس کا جسم نہ صرف کمزور بلکہ بد صورت بھی ہو گیا اور رنگت زرد پڑ گئی۔ اس کی خوبصورتی زائل ہو

چکی تھی اور لونڈی اس کی خوبصورتی پر عاشق تھی اور اس کی خوبصورتی زائل ہونے کے ساتھ ساتھ لونڈی کا عشق بھی رفو چکر ہو گیا۔ سنار موت سے ہمکنار ہو گیا۔اجنبی کے ہاتھوں سنار کی ہلاکت مصلحت خداوندی تھی۔ اجنبی نے اسے کسی خوف کا بنا پر یا کسی امید کی بنا پر بادشاہ کی خاطر ہلاک نہ کیا تھا بلکہ مصلحت خداوندی کے تحت ہلاک کیا تھا کیونکہ اسے ایسا کرنے کا حکم بذریعہ الہام ہو ا تھا



کالم



سچا اور کھرا انقلابی لیڈر


باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…