واشنگٹن، کابل(این این آئی)افغانستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں امریکی صدر جو بائیڈن پر وزیراعظم عمران خان سے رابطے کے لیے دباو بڑھ گیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ڈیموکریٹ سینیٹر کرس وین نے کہا ہے افغان صورت حال کے تناظر میں صدر جو بائیڈن پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کریں۔کرس وین نے مزید کہا کہ صدر
بائیڈن اور عمران خان کے درمیان رابطے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، امریکی وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور اعلی حکام کا پاکستانی حکام سے مکمل رابطہ ہے۔ڈیموکریٹ سینیٹر نے کہا کہ عالمی برادری کو طالبان پر دباو ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ طالبان افغان حکومت میں ہر مکتب فکر اور گروپوں کو نمائندگی دیں۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان یقینی بنائیں کہ افغان سرزمین آئندہ دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہو۔دوسری جانب افغانستان سے نکالے گئے ہزاروں افغان پناہ گزین جرمنی میں ایک امریکی ایئر بیس پر رہنے پر مجبور ہیں، کیونکہ خسرہ کے سبب امریکا نے مزید پروازیں روک دی ہیں۔ ادھر برطانیہ نے بھی درجنوں افغانوں کو قبول کرنے سے منع کر دیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق خسرے کی وبا پھیلنے کے سبب امریکا کے لیے پروازیں بند ہونے کی وجہ سے نو ہزار سے بھی زیادہ افغان پناہ گزیں، جو گزشتہ بیس برسوں کے دوران مغربی ممالک کی جنگ میں ان کی مدد کیا کرتے تھے، جرمنی میں ایک امریکی فضائی اڈے
رامسٹین پر پھنس کر رہ گئے ۔اس کے علاوہ مزید 57 افغان پناہ گزین جرمن شہر گیسن میں اس بات کے منتظر ہیں کہ انہیں برطانیہ میں داخلے کی اجازت مل جائے، تاہم برطانوی کسٹم حکام نے منع کر دیا اور کہا ہے کہ ان کے داخلے کے لیے جو ضروری دستاویزات چاہیں وہ ان کے پاس نہیں ہیں۔جرمنی کے ایک معروف اخبار کی خبر کے مطابق فرینکفرٹ
ایئر پورٹ پر برطانوی کسٹم حکام نے 57 ایسے افغان پناہ گزینوں کو ہوائی جہازمیں سوار ہونے کی اجازت نہیں دی، جو برطانیہ میں پناہ لینا چاہتے تھے۔ اس میں بیس افغان مرد، 19 خواتین اور 18 بچے شامل ہیں، جو ازبکستان کے شہر تاشقند سے جرمنی پہنچے تھے۔جب یہ افراد جرمنی سے برطانیہ کی فلائٹ پکڑنے کے لیے پہنچے تو حکام نے انہیں
برطانیہ کی فلائٹ لینے سے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ان کے پاس مطلوبہ دستاویزات نہیں ہیں۔ سماجی امور سے متعلق یوروپیئن وزارت کی ترجمان نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے 57 افراد انسانی بنیادوں کے سبب اب فرینکفرٹ کے پاس ہی جرمن شہر گیسین میں رکنے پر مجبور ہیں۔ تاہم ترجمان نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ آخر ایسی کیا کمی تھی کہ برطانیہ نے انہیں لینے سے منع کر دیا۔ جرمنی میں برطانوی سفارت خانے سے اس صورت حال پر رائے معلوم کرنے کی کوشش کی گئی تاہم حکام تک رسائی نہیں ہو پائی۔