اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لیے حکومت بجلی ٹیرف میں مزید سرچارجز عائد کرنے کی خواہاں ہے۔ جب کہ حکومت مستقبل کے منصوبوں کی فنڈنگ بھی بجلی کے بلوں کے ذریعے حاصل کرنے کی تیاری کررہی ہے، حالاں کہ صارفین پہلی ہی 5 ٹیکسز 2 سرچارجز ادا کررہے ہیں۔روزنامہ جنگ میں خالد مصطفی کی خبر کے مطابق، آئی ایم ایف سے ہونے والی مفاہمت کے تحت
حکومت ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ انہیں صارفین کے ٹیرف میں مزید سرچارجز عائد کرنے کے اختیارات مل جائیں تاکہ نا صرف آئی ایم ایف کے مستقبل کے منصوبے مکمل ہوں بلکہ پاور سیکٹر میں حکومت کی مالیاتی ذمہ داریاں بھی پوری ہوسکیں۔صارفین نا صرف قرضوں کی ادائیگی کریں گے بلکہ قرضوں کی قسطیں بھی سرچارج کی مد میں ادا کریں گے، جس کا مقصد گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنا ہے جو کہ بڑھ کر 24 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے اب تک جو سرچارجز لیوی کیے ہیں انہیں بجلی کے بلوں میں ظاہر نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں ڈسکوز کے چارج کردہ اخراجات کا حصہ بنایا جائے گا، جو کہ سروس کے اخراجات یا ترسیلات کے فرق کا حصہ ہوگا۔ تمام ڈسکوز کا یکساں ٹیرف نظام ہوگا۔جب کہ سرچارج کی تعریف سروس کے اخراجات کے طور پر کی گئی ہے، جسے صارف ٹیرف میں شامل کیا جائے گا اور اب خودمختار ضمانتی قرضے جیسا کہ سکوک کا مطلب قرض کی بنیادی رقم اور سود کی ادائیگی صارفین سرچارج کی مد میں کریں گے جو کہ ٹیرف کا حصہ ہوں گی۔یہ تمام باتیں اس رپورٹ میں سامنے آئی ہیں جو کہ 21 رکنی قائمہ کمیٹی برائے توانائی (پاور ڈویژن) نے پیش کی تھی جس کی سربراہی چوہدری سالک حسین کررہے تھے۔ جس بل میں مزید ترمیم ہونی ہے وہ ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور ایکٹ، 1997 ہے۔تاہم، پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز شازیہ مری، سید غلام مصطفیٰ شاہ نے ریگولیشن، جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور (ترمیمی) بل، 2020 کی سخت مخالفت کی۔