اسلام آباد(این این آئی) وزیر اعظم عمران خان سے معاون خصوصی برائے فوڈ سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ نے ان کے دفترمیں ملاقات کی ۔جمشید اقبال چیمہ نے وزیر اعظم ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان پر بریفنگ دی اوربتایا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ پورے پاکستان کی ایگریکلچرل میپنگ کر لی گئی ہے جس کے تحت بنجر زمینوں کو زیر
کاشت لایا جائے گا اور پانی کے وسائل کے استعمال میں مزید بہتری لائی جائے گی۔میپنگ کے تحت پورے پاکستان میں بشمول بلوچستان سالانہ فصلوں کی کاشت اور موزوں فصلوں کے انتخاب کے ساتھ ساتھ لائیو سٹاک کے فروغ کا جامع پلان تیار کر لیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو بتایا گیا کہ چولستان کی 60لاکھ ایکڑ اراضی کو قابل کاشت بنا کر کسانوں میں تقسیم کیا جائے گا اور کارپوریٹ فارمنگ بھی متعارف کرائی جائے گی۔وزیر اعظم عمران خان نے معاون خصوصی جمشید اقبال چیمہ کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ دوسری جانب نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ زرعی شعبہ کے لئے چیلنجز اور حکومت کی عدم توجہ بڑھ رہی ہے۔ بجٹ میں ملک کے اہم ترین زرعی شعبہ کی ترقی کے لئے صرف بارہ ارب روپے رکھنا اس سیکٹر سے مذاق اور دیہی آبادی کی توہین کے مترادف ہے جس پر اپوزیشن تو درکنار پی ٹی آئی کے اپنے ممبران قدمی اسمبلی کے احتجاج کا نوٹس لیا جائے۔ اس وقت برآمدی آمدنی کا چالیس فیصد زرعی مصنوعات کی درآمد پر خرچ کیا جا رہا ہے اور اگر اس اہم شعبہ کو نظر انداز کیا جاتا رہا تو مزید اخراجات کرنا ہونگے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری
سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ زراعت ملک کی اقتصادی ترقی، فوڈ سیکورٹی، روزگار کی فراہمی اور غربت کے خاتمہ کے لئے سب سے اہم شعبہ ہے اور ملک کی زیادہ تر پیداوار و برآمدات بھی اسی شعبہ کی محتاج ہیں جسے صرف بیانات میں اہمیت دی جا رہی ہے۔ کئی دہائیوں سے جی ڈی پی میں 19.2 فیصد حصہ رکھنے اور
38.5 فیصد روزگار فراہم کرنے والے زرعی سیکٹرکو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اس میں سرکاری یا نجی شعبہ کی سرمایہ کاری بہت محدود ہے جس نے اسکی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں۔ پانی کی کمی، موسمیاتی تبدیلی، بینکوں کی عدم توجہ، غیر معیاری بیج و ادویات، جدید طریقوں سے اغماز برتنا، پیداوار کے ضیاں، ریسرچ کے فقدان اور دیہی
علاقوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی سمیت بہت سے عوامل نے اس شعبہ کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور بقول وزیر خزانہ شوکت ترین پاکستان نیٹ فوڈ امپورٹر بن کر رہ گیا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ اس شعبہ کے لئے زمینی حقائق سے متصادم
فیصلے کئے جا رہے ہیں جس میں کاشتکار کی فلاح کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی پالیسیوں سے سرمائے کے ضیاں کے علاوہ کوئی اور مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ سبسڈی کی بڑی مقدار جاگیرداروں، آڑھتیوں، انوسٹرز اور فرٹیلائیزر پروڈیوسرز کی جیب میں چلی جاتی ہے اور غریب کسان
اپنی قسمت کو کوستا رہ جاتا ہے۔ زرعی معیشت کی ترقی اور اس میں نجی شعبہ کی سرمایہ کاری کے لئے حکومت کو ٹیکس مراعات دینا ہونگی، زرعی شعبہ کو سرمایہ کاری کے لئے پر کشش بنانا ہو گا اور کسان کی فلاح کو اولین ترجیح دینا ہو گی ورنہ جی ڈی پی میں زرعی شعبہ کا حصہ سکڑتا چلا جائے گا جس کا نتیجہ سنگین مسائل کی صورت میں نکلے گا۔