ہفتہ‬‮ ، 30 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

1972میں بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے پولیس کی ہڑتال ختم کرانے کیلئے اس وقت کے آرمی چیف اور ائیر چیف سے مدد مانگی لیکن دونوں نے انکار کردیااس کے بعد کیا ہوا؟حامد میرکے اہم انکشافات،عمران خان کو بڑا مشورہ دیدیا

datetime 22  اکتوبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر اینکرپرسن اور کالم نگار حامد میر اپنے آج کے کالم ”ہوش کے ناخن لیں” میں لکھتے ہیں کہ 1972میں بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو ناصرف صدر پاکستان بلکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ اس وقت پنجاب اور سرحد(خیبر پختونخوا)

میں پولیس نے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ مطالبہ پورا نہ ہوا تو دونوں صوبوں میں پولیس نے کام چھوڑ دیا، ہڑتال ہو گئی۔ بھٹو نے اس وقت کے آرمی چیف گل حسن سے مدد مانگی لیکن گل حسن نے معذرت کر لی۔ آخر کار بھٹو نے مجبور ہو کر ایئر فورس کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان سے مدد مانگی۔ منیر احمد منیر کی کتاب المیہ مشرقی پاکستان، پانچ کردار میں گل حسن اور رحیم خان کے انٹرویوز موجود ہیں۔بھٹو کو شک تھا کہ یہ ہڑتال گل حسن اور ولی خان کی سازش ہے لیکن ان کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا۔ یہ معاملہ اتنا بگڑا کہ گل حسن نے استعفیٰ دے دیا۔ بھٹو کی خواہش تھی کہ فوج مدد کو نہیں آئی تو ایئر فورس مدد کو آئے۔ ایئر مارشل رحیم نے بھٹو سے کہا کہ سر ایئر فورس اپنے لوگوں پر بمباری نہیں کر سکتی۔ بھٹو نے کہا، آپ پنجاب کے شہروں پر نیچی پروازیں کریں تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ مسلح افواج ہمارے ساتھ ہیں۔ ایئر مارشل رحیم خان نے بھی انکار کر دیا اور استعفیٰ دے دیا۔بھٹو نے ان دونوں کو آسٹریا اور اسپین میں سفیر

بنا کر بھیج دیا۔ بعد ازاں پولیس کی ہڑتال ناکام بنانے کے لئے گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر نے خالی تھانوں کا چارج پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو دے دیا اور الٹی میٹم دیا کہ 24گھنٹے میں ڈیوٹی پر واپس نہ آنے والے پولیس اہلکاروں کو نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ 24گھنٹے

میں ہڑتال ختم کر دی گئی اور پولیس کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ 3مارچ 1972کو صدر بھٹو نے قوم سے خطاب میں اِس ہڑتال کو بغاوت قرار دے دیا اور اِس بغاوت میں اپوزیشن کی ملی بھگت کا دعوی کیا۔بعد ازاں انہوں نے بلوچستان میں اپوزیشن کی حکومت کو

وفاق کے خلاف سازش کے الزام میں برطرف بھی کر دیا لیکن آخر کار اپنی غلطیوں کے باعث ایک ایسے مقدمہ قتل میں ملوث کر دیے گئے جو ان کے دور حکومت میں پنجاب پولیس نے ان پر درج کیا تھا۔آج کے حکمرانوں کو ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 1972میں پولیس

کی ہڑتال کے بعد پنجاب میں بیورو کریسی نے ایک سرکاری افسر کی گرفتاری پر اور بعد ازاں مزدوروں نے کراچی میں بہت بڑی ہڑتال کی تھی۔ بہتر ہو گا کہ 2020 میں سندھ پولیس کے ردِعمل کے پیچھے سازش تلاش نہ کی جائے بلکہ اپنی غلطیوں کو تلاش کر کے انہیں سدھارا جائے۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکیوں سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید بگڑیں گے، اِس لئے ہوش کے ناخن لئے جائیں۔

موضوعات:



کالم



ایک ہی بار


میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…