پشاور (این این آئی)جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہ کل سوچتے تھے سری نگر کیسے لینا ہے، آج سوچتے ہیں مظفرآباد کیسے بچانا ہے،موجودہ حکومت، اسرائیل کے ناجائز قبضے کو تسلیم کرنے کی جانب گامزن ہے،ملک کو بچانا ہے تو ان حکمرانوں کو نکالنا ہوگا،پاکستان میں قرآن وسنت کے منافی قانون نہیں بن سکتا، ان حکمرانوں کی ہماری تہذیب سے کوئی وابستگی نہیں ۔
پشاور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ہم کشمیریوں اور فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی سے وفا نہیں کررہے جس طرح کے حکمران آج مسلط کردیے گئے ہیں ان کا مذہب اور تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مجھے ایک زمانے کہا گیا کہ پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری ہیں اور انہیں کمزور کرنے کے لیے اس سے بہتر (موجودہ حکمراں) جماعت جیسی کوئی اور پارٹی نہیں ہوسکتی۔انہوں نے کہا کہ حکومت ہزار نیب کو استعمال کرے لیکن ہمیں کوئی خوف نہیں ہے، اس وقت ہمیں بے نیاز ہو کر میدان میں لڑنا ہے، ملک کو بچانا ہے تو حکمرانوں کو بے دخل کرنا ہوگا۔مقبوضہ کشمیر سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وادی وہ اپنے ملک کا حصہ بنا لیا لیکن ہم پسپاہی کی طرف چلے گئے۔انہوں نے کہا کہ آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ مظفر آباد کیسے بچانا ہے، فلسطینی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم مصلحتوں کا شکار ہیں۔جے یو آئی (ف) کے رہنما نے کہا کہ ہماری جماعت ایک سیاسی جماعت ہے جس کی 100 سالہ طویل تاریخ ہے، وطن عزیز کی آزادی اور ملت اسلامیہ کی رہنمائی کے لیے اس قافلے کا آغاز 1919 میں ہوا تھا اور آج پاکستان کی بڑی اور معتبر سیاسی قوت تسلیم کی جاتی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر مقتدر قوتیں ہمارے سامنے رکاوٹ نہ بنے
تو میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جے یو آئی (ف) پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت ہوگی۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی 2018 کے انتخابات میں ہوئی، دھاندلی جمہوریت کے اوپر شب خون ہے اور جس طرح جے یو آئی نے دھاندلی کو چیلنج کیا، کوئی دوسری سیاسی جماعت اس کی ہم عصری نہیں کرسکی۔انہوں نے کہا اگر ہم 14 اگست مناتے ہیں تو آزادی محض ناچ گانوں یا بازاروں میں منچلوں کی گشت کا نام
نہیں ہوتا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کہ قوم اور آنے والی نسلوں کو محسوس ہونا چاہیے انگریز کا زمانہ وہ تھا اور اسلام کا زمانہ یہ ہے، جب تک ہم اس فرق اور امتیاز کو سامنے نہیں لاتے اس وقت تک حقیقی آزادی کے دعویدار نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے 1973 کے آئین میں واضح ہے کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنیں گے لیکن 2020 تک ایک قانون سازی بھی قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہوئی۔انہوںنے کہاکہ ہم آمرانہ رویوں سے پہلے بھی لڑتے تھے اب بھی لڑیں گے، ہمیں آپ کے حربوں سے کوئی خوف نہیں۔