ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ڈاکٹر عبدالقدیر اگر اس زمانے میں چاند بھی خرید لیتے تو ہم اس کی قیمت بھی ادا کر دیتے،ڈاکٹر قدیر نے ایک بار سی ڈی اے کے دفتر کو بم سے اڑانے کا حکم دے دیا تھا

datetime 28  جولائی  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چوھردی اپنے کالم ’’بند مینجمنٹ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ امیر گلستان جنجوعہ نے مسافر کی ان سے ملاقات کا اہتمام کیا تھااور مسافر نے ان سے صرف ایک سوال پوچھا تھا ’’کیا پاکستان ایٹمی طاقت ہے؟‘‘ غلام اسحاق خان انتہائی محتاط انسان تھے لہٰذا انھوں نے سیدھا جواب نہیں دیا‘ وہ ہنس کر بولے ’’کیا آپ کو کوئی شک ہے‘‘ مسافر نے بھی ہنس کر پوچھ لیا

’ ’پھرآپ نے پاکستان کو ایٹمی طاقت کیسے بنایا‘‘ وہ سنجیدہ ہو گئے‘ تھوڑا سا سوچا اور پھر جواب دیا ’’ہم نے اہل ترین ٹیم چوز کی تھی‘ ہم کہوٹہ پلانٹ کی گاڑیوں کے پنکچر بھی کسی عام پنکچر والے سے نہیں لگواتے تھے۔ملک کا بیسٹ پنکچر بوائے ارینج کرتے تھے‘ ہم نے کہوٹہ پلانٹ کے لیے اینٹیں‘ بجری‘ سیمنٹ اور سریا بھی خصوصی بنوایا تھا چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں ہم نے ٹیم اور مٹیریل دونوں پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا ‘ دوسرا ہم نے ایٹمی پروگرام کو فنانشل فریڈم دے رکھی تھی‘ یہ لوگ جو پرزہ یا مٹیریل مانگتے تھے ہم اس کے لیے دولت اور وسائل کے دریا بہا دیتے تھے‘ ہمیں وہ خریدنا پڑتا تھا تو ہم منہ مانگی قیمت دے کر خرید لیتے تھے‘ لیکن ہم وہ انھیں پہنچاتے ضرور تھے‘ ہم نے صرف ڈاکومنٹس کے لیے بھی جہاز چارٹر کرائے تھے۔پورے ملک میں صرف ایک ادارہ آڈٹ سے مستثنیٰ تھا اور وہ تھا کہوٹہ پلانٹ‘ ڈاکٹر عبدالقدیر اگر اس زمانے میں چاند بھی خرید لیتے تو ہم اس کی قیمت بھی ادا کر دیتے‘ ملک میں ایک سال گندم کی قلت پیدا ہو گئی تھی لیکن ہم اس وقت بھی اپنے سائنس دانوں کو فرانس سے منرل واٹر منگوا کر دیتے تھے‘ڈاکٹر قدیر نے ایک بار سی ڈی اے کے دفتر کو بم سے اڑانے کا حکم دے دیا تھا‘ ہم نے انھیں یہ اجازت بھی دے دی تھی‘ لوڈ شیڈنگ کے زمانوں میں ایوان صدر میں بھی بجلی نہیں ہوتی تھی لیکن ایٹمی تنصیبات کی نالیوں میں دن میں بھی بلب جل رہے ہوتے تھے

اور تیسری وجہ ہم نے فیصلہ کر لیا تھا ہمیں اگر گھاس بھی کھانی پڑی تو ہم کھا لیں گے لیکن ایٹمی طاقت ضرور بنیں گے اور ہم بن گئے‘‘۔مسافر صدر غلام اسحاق سے اپنی یہ ملاقات بھول چکا تھالیکن پچھلے ماہ جب کراچی میں لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی اور’’ کے الیکٹرک‘‘ کو بند کر دیں یا حکومت اس کو قبضے میں لے لے کی آوازیں آنے لگیں تو مسافر کو اچانک غلام اسحاق خان سے اپنی واحد ملاقات یاد آ گئی

اور مسافر سوچنے لگا غلام اسحاق خان کا پاکستان کو ن سا ملک تھا؟ ہم آج ہر اس ادارے کو بند کرنے کا مطالبہ کر دیتے ہیں جو ہم سے چل نہیں پاتا‘ پی آئی اے کا جہاز گر گیا تو ریاست کے اندر سے آوازیں آنے لگیں پی آئی اے کو بند کر دیں‘ اسٹیل مل نہیں چل رہی تو بند کر دیں‘ ٹورازم پروان نہیں چڑھ رہی توٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے موٹل‘ ہوٹل

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…