قومی اسمبلی میں فنانس بل پر رائے شماری نے وزیراعظم کی کمزوری عیاں کردی، عمران خان کیخلاف ہائی کورٹ میں حیرت انگیز درخواست جمع کرا دی گئی

2  جولائی  2020

اسلام آباد(آن لائن) قومی اسمبلی میں فنانس بل پر رائے شماری نے وزیراعظم کی کمزوری عیاں کردی اور ان کی حمایت میں کمی واقع ہوئی ہے لہذا صدر مملکت وزیراعظم سے اعتماد کے ووٹ کے حصول کا تقاضا کریں، صدر مملکت کا مذکورہ آئینی اختیار جنرل ضیاء الحق کے دور میں آئین میں شامل کیا گیا اور اٹھارہویں ترمیم کے باوجود یہ اب تک آرٹیکل91میں موجود ہے، ایک رٹ پٹیشن میں اسلام آباد ہائیکورٹ کو بتایا گیا ہے کہ

فنانس بل کی منظوری آئین کے طے کردہ طریقہ کار کے برعکس ہوئی ہے اوراس سے وزیراعظم پر ایوان کے اعتماد کا اظہار نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ آرٹیکل95 میں دی گئی تحریک عدم اعتماد کی نسبت آرٹیکل 91 کا طریقہ کار خاصا مختلف ہے اور اس میں وزیراعظم کے مخالفین کو عدم اعتماد کی قرارداد پیش کر نے کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لئے تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔پٹیشن میں ہائیکورٹ کے روبر سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا فنانس بل کی منظوری وزیراعظم پر قومی اسمبلی کے اعتماد کی عکاسی کرتی ہے اور کیا صدر مملکت اس بارے اپنے آئینی اختیار کے استعمال کے لئے خود کو تیار پاتے ہیں؟ پاکستان کی آئینی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ سوال کسی ہائیکورٹ کے روبرو اٹھایا گیا ہے اور خود جنرل ضیاء الحق نے اسے کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔ ہائیکورٹ سے کہا گیا ہے کہ صدر مملکت درخواست کی جائے کہ وہ وزیراعظم کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات سے قطع نظر آئینی تقاضا پورا کریں۔درخواست گزار شاہد اورکزئی نے ہائیکورٹ پر واضح کیا کہ آئین صدر مملکت اور وزیراعظم کو سیاسی طور پر ہم جماعت نہیں سمجھتا اور صدر مملکت حلفاً کہہ چکے ہیں کہ وہ ہر حالت میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق بلا خوف و رعایت پیش آئیں گے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے اعتماد کا پیمانہ اسمبلی کے کل ارکان کی اکثریت ہے جس کو حاصل کیے بغیر کوئی شخص وزیراعظم

نہیں بن سکتا لیکن فنانس بل کے لئے وفاقی حکومت کل ارکان کی اکثریت کی بجائے حاضر ارکان کی اکثریت کو اعتماد کا پیمانہ بنارہی ہے جو یکسر غیر آئینی ہے کیونکہ عدم اعتماد کے لئے بھی اسمبلی کے کل ارکان کی اکثریت درکار ہوتی ہے۔درخواست گزار نے واضح کیا کہ وزیراعظم کے حامی وزیراعظم کے انتخاب کے لئے دیئے گئے طریقہ کار سے وزیراعظم پر اعتماد کی راہیں تلاش کررہے ہیں حالانکہ انتخابی طریقہ کار اور فنانس بل کی

منظوری دوبالکل علیحدہ معاملے ہیں اور انتخابی ووٹ گننا مخالف امیدواروں کے درمیان سبقت طے کرتا ہے جبکہ فنانس بل کی منظوری کے لئے رائے شماری میں ایسی کوئی مسابقت نہیں ہوتی۔شاہد اورکرزئی نے یاد دلایا کہ وزیراعظم عمران خان آرٹیکل91 کے تحت پہلی رائے شماری میں مطلوبہ اکثریت حاصل کرکے کامیاب ہوئے اور دوسری یا تیسری رائے شماری کی نوبت ہی نہیں آئی لہذا اب ان کے اعتماد کے لئے کوئی نیا پیمانہ نہیں گھڑا جاسکتا۔

موضوعات:



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…