جمعہ‬‮ ، 12 ستمبر‬‮ 2025 

خطرہ ہے کہ مہینے کے آخر میں ہسپتالوں میں جگہ نہ کم پڑ جائے، وزیراعظم عمران خان نے تشویشناک بات کر دی

datetime 8  اپریل‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم عمران خان نے کوروبا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح بیماری پھیل رہی ہے ہمیں خطرہ ہے کہ رواں ماہ کے آخر میں کہیں ہسپتالوں میں جگہ کم نہ پڑ جائے، پاکستان کو کورونا وبا جیسے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ہم بہت بڑے مسئلے سے بچ سکتے ہیں، جتنے زیادہ لوگ جمع ہوں گے بیماری اتنی تیزی سے پھیلے گی،

ہر ملک میں کورونا بیماری کا پھیلاوَ مختلف ہے، پاکستان میں لوگ سمجھتے ہیں بیماری ان پر اثر نہیں کرے گی، کئی علاقوں میں لوگ احتیاط نہیں کررہے، کسی نوجوان کو بیماری لگی تو اس کے گھر میں موجود بزرگوں کو خطرہ ہوسکتا ہے، کیسز کی تعداد بڑھی تو ہمارے پاس اتنے وینٹی لیٹرز نہیں ہیں کہ ان کا علاج ہو سکے، سب سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا کے واسطہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں،لاک ڈاؤن اس وقت کامیاب ہوگا جب لوگوں کو گھروں پر کھانا اور بنیادی ضروریات دستیاب ہوں گی۔وہ بدھ کو یہاں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کررہے تھے۔اس موقع پر وزیراعظم کے ہمراہ وفاقی وزیر اسد عمر، چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل، معاونین خصوصی عثمان ڈار اور ثانیہ نشتر بھی موجود تھیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ابھی تک صرف 40لوگ مرے ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ہمارے پاکستانیوں کی قوت مدافعت زیادہ ہے یا شاید ہمیں یہ بیماری اثر نہیں کریگی۔انہوں نے کہا کہ میں سب سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا کا واسطہ اس غلط فہمی میں نہ پڑیں کیونکہ اگر یہ سوچ آ گئی تو یہ وبا بہت خطرناک ہے اور ہمارے لوگ یہ سوچ کر احتیاط نہیں کررہے کہ پاکستانیوں کو فرق نہیں پڑیگا۔وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں جس طرح یہ وبا بڑھتی جا رہی ہے تو ہمیں خوف ہے کہ مہینے کے اختتام تک جن چار یا 5 فیصد لوگوں کو ہسپتال جانا پڑے گا ان کی تعداد اتنی ہو جائیگی کہ ہمارے ہسپتالوں میں آئی سی یو یا شدید بیمار مریضوں کیلئے جگہ نہیں ہو گی۔

انہوں نے کہاکہ اگر ہم شدی بیمار لوگوں کا علاج کرنے سے قاصر ہوں گے، ہمارے ہسپتالوں میں اتنے وینٹی لیٹر نہیں ہوں گے اور ہم ان کا علاج نہیں کر سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم احتیاط کریں گے تو اگر بیماری کم شدت سے پھیلتی ہے تو ابھی ہمارے ہسپتالوں میں جگہیں ہیں۔عمران خان نے کہا کہ تین ہفتے پہلے ہم نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد ہم نے اسکول، یونیورسٹیز کے بعد فیکٹریاں دکانیں وغیرہ بند کردی تھیں تاہم یورپ، امریکا اور چین میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے ہمارا لاک ڈاؤن مختلف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کا ایک بڑا یعنی تقریباً پانچ کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں تو ہمیں لاک ڈاؤن کا یورپ اور چین کی طرح نہیں سوچنا چاہیے کیونکہ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ اگر ہم ان کی طرح لاک ڈاؤن کریں گے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں معلوم ہے کہ جو روزانہ دیہاڑی کمانے والے ہیں، رکشا چلانے والے، چھابڑی والے، دکاندار وغیرہ پر لاک ڈاؤن کا سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے کیونکہ وہ سارا دن دیہاڑی کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے ہم نے کوشش کی کہ کسی طرح سے توازن قائم ہو جائے، لاک ڈاؤن بھی ہو تاکہ بیماری نہ پھیلے اور اس کمزور طبقے پر بھی بوجھ نہ پڑ جائے اور یہی وجہ ہے تمام صوبوں اور وفاق کا ردعمل مختلف تھا۔وزیر اعظم نے کہا کہ امریکا جیسے ملک میں بھی مختلف ریاستوں میں مختلف رویہ ہے، کئی نے پورا لاک ڈاؤن کردیا ہے، کئی نے جزوی لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے، یورپ میں بھی سوئیڈن کا مختلف ہے جبکہ جرمنی کا اسپین اور اٹلی سے مختلف ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے زراعت کے شعبے میں لوگوں کو کام کرنے دینا ہے کیونکہ ہمیں یہ بھی دھیان رکھنا ہے کہ ہمارے 22کروڑ لوگ ہیں جنہیں ہمیں کھانا پینا بھی دینا ہے خصوصاً اب گندم کی کٹائی شروع ہو چکی ہے تو ہم نے دیہاتوں میں کہا ہے کہ کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے اصل لاک ڈاؤن شہروں میں کیا ہے، اب شہروں میں بھی سب کو خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں کہ لوگوں کے حالات برے ہیں، مزدوروں اور دیہاڑی کمانے والوں کے برے حالات ہیں تو اس کی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا کہ شعبہ تعمیرات کو کھول دیا جائے تاکہ لوگوں کو نوکریاں ملیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت نے مسلسل کورونا وائرس کے مقابلہ کیلئے اقدامات پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے، ہمیں احتیاط کی ضرورت ہے، لوگوں کو جیلوں میں نہیں ڈال سکتے، پوری قوم کو مل کر اس وباء کا مقابلہ کرنا ہے، وباء کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، حالات احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں، کوئی حکومت موجودہ صورتحال کا اکیلے مقابلہ نہیں کر سکتی، قوم کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مخیر حضرات اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اپنی آخرت سنوارنے کیلئے عطیات دیتے ہیں، نوجوان اور یہ مخیر حضرات موجودہ مشکل صورتحال میں ہماری طاقت ہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر


حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…