اسلام آباد (این این آئی)وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے حوالے سے ہمیں حل کا حصہ سمجھا رہا ہے اسی لیے امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے وقت دوحہ میں موجود رہنے کے لیے ہمیں دعوت دی گئی ہے،امریکا اور پاکستان کے تعلقات جو ایک عرصے سے ٹھہرے ہوئے تھے اس میں ایک نئے باب کا اضافہ ہورہا ہے اور باہمی تجارت، سرمایہ کاری پر بات ہورہی ہے،
ٹریول ایڈوائزری پر دوبارہ بات ہورہی ہے اور کہتے ہیں کہ ہم نے جائزہ کیا تھا جس میں بہتری ہوئی اور مزید آگے بڑھنے کی گنجائش ہے،14 شعبوں میں بہتر اقدامات کیے گئے ہیں اور ٹریول ایڈوائزری سمیت افغانستان اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) پر ایک بھرپور شفٹ آیا ہے، بھارت میں آر ایس ایس کے غنڈے مسجدوں کو شہید کر رہے ہیں اور مسجدوں پر آر ایس ایس کے جھنڈے لگائے جا رہے ہیں، ہمیں اس صورت حال پر بہت تشویش ہے،وزیراعظم (آج) ایک روزہ دورے پر قطر جا رہے ہیں جہاں امیر قطر سے ملاقات کریں گے۔ بدھ کو یہاں سیکریٹری خارجہ سہیل محمود اور ایڈیشنل سیکرٹری تجارت کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا کے سیکریٹری کامرس ولبر روس، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر دہلی سے سیدھے اسلام آباد پہنچے ہیں۔امریکی سیکریٹری تجارت کے یہاں آنے کے دو مقاصد تھے اور انہوں نے دو چیزوں پر توجہ مرکوز کی جس میں پہلا یہ کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور امریکا کے درمیان دو طرفہ تجارت کو کس طرح بڑھا سکتے ہیں اور موجودہ قوانین کے تحت ہم کس طرح اپنی برآمدات کو بڑھا سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ دور رس فیصلے کیا کر سکتے ہیں۔امریکی سیکرٹری تجارت کے دورے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ دورہ ڈیووس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران طے ہوا تھا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے حوالے سے تفصیلی بات کی جائے۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کیسے راغب کرنا ہے اور کن کن شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے اس کے لیے انہوں نے پہلے سے موجود امریکی سرمایہ کاروں سے ان کے تاثرات لیے اور اگر ان کو دشواریاں ہیں تو وہ کیا ہیں اور دیگر رزاق داؤد اور خزانہ کے مشیر عبدالحفیظ شیخ اور توانائی کے ویزر عمر ایوب اور منصوبہ بندی اسد عمر اور خسرو بختیار سے ملاقات ہوئی اور اس کے علاوہ وزیراعظم سے بھی ملاقات کی۔انہوں نے کہاکہ اسی دفتر خارجہ میں 2018 میں سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو تشریف لائے تھے تو کیا ماحول تھا
اور آج امریکا-پاکستان کے تعلقات میں تبدیلی آئی ہے تو کس حد تک آئی ہے، اگست 2017 میں جنوبی ایشیا کے حوالے سے پالیسی بیان آیا تھا تو افغانستان میں ہمیں اس وقت مسئلے کا حصہ سمجھا جا رہا تھا لیکن اب ہمیں مسئلے کے حل کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔وزیرخارجہ نے کہا کہ آج آپ کو ایک نئے انداز میں دیکھا جارہا ہے جو خوش گوار تبدیلی ہے اور دعوت دی جارہی ہے کہ آپ 29 تاریخ کو دوحہ تشریف لائیں اور جو امریکا اور طالبان کے درمیان کے تقریباً ڈیڑھ سال مذاکرات ہوئے اور اپنے منطقی انجام ک وپہنچ رہے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ وہاں ہوں۔امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے پر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
آپ وہاں کیوں ہوں کیونکہ آپ کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا آپ اس لیے وہاں ہوں کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آپ ثالث تھے اور آپ کی ثالثی کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا، یہ ایک بڑی تبدیلی ہے جس کو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ 29 تاریخ کو پاکستان کے وزیرخارجہ کو باقاعدہ دعوت نامہ ارسال کیا جاتا ہے کہ آپ کا وہاں ہونا ہمارے لیے باعث افتخار ہوگا اور میں قطر جارہا ہوں اور پاکستان کی نمائندگی کا شرف اور اعزاز حاصل ہورہا ہے اور یہ ایک اچھی پیش رفت ہے جس سے میں آگاہ کرنا چاہتا تھا۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم ایک نکتہ اٹھاتے تھے تو وہ سمجھتے تھے کہ شاید وہ وقت نہیں ہے لیکن آج وہ اس چیز کا اعتراف بھی کررہے ہیں اور عملی مظاہرہ کر رہے ہیں کہ
حالات پلٹ چکے ہیں اور نئے باب کا آغاز ہو چلا ہے، امریکا اور پاکستان کے تعلقات جو ایک عرصے سے ٹھہرے ہوئے تھے اس میں ایک نئے باب کا اضافہ ہورہا ہے اور باہمی تجارت، سرمایہ کاری پر بات ہورہی ہے۔وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ٹریول ایڈوائزری پر دوبارہ بات ہورہی ہے اور کہتے ہیں کہ ہم نے جائزہ کیا تھا جس میں بہتری ہوئی اور مزید آگے بڑھنے کی گنجائش ہے اور مجھے یہ کہتے ہوئے مسرت ہورہی ہے کہ اس میں بھی جیسے برطانیہ نے ایک واضح موقف دیا تھا اور قوم دیکھے گی امریکا کا بھی ٹریول ایڈوائزری پر موقف آنے والا ہے۔امریکی سیکریٹری تجارت کے دورے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 14 شعبوں میں بہتر اقدامات کیے گئے ہیں اور ٹریول ایڈوائزری سمیت افغانستان
اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) پر ایک بھرپور شفٹ آیا ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ سب ایک بٹن دبانے سے نہیں بلکہ مسلسل کاوشوں سے ہوا ہے اسی لیے بھارت کی سرزمین پر ان کا مہمان جلسہ عام میں پاکستان کی بات کرتا ہے اور صدر ٹرمپ نے وزیراعظم کو اچھا دوست کہا اور یہ سب بھارت کے دل پر بوجھ ہے اور ہضم کرنے کے لیے بھاری ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارت میں تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں ان کی سرزمین میں کھڑے ہو کر کشمیر کا ذکر کیا اور کہا کہ ایسا کانٹا ہے جو چبھ رہا ہے اور اس کانٹے کو نکالنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنا یعنی کہ ایک مرتبہ پھر کشمیر پر ثالثی کی بات دہرائی، یہ جانتے ہوئے کہ بھارت، کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دے چکا ہے اور یہ ایک پیش رفت ہے اور اور ہمیں اس کو تسلیم کرنا چاہیے۔وزیرخارجہ نے کہا کہ آج کے دن پاک فوج اور پاک فضائیہ کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جس طرح انہوں نے ایک سال قبل بھارتی جارحیت پر ان کے دو جہازوں کو مار گرایا
اس پر ہمیں اپنی افواج پر فخر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی سیکرٹری روز کے ساتھ اچھی نشستیں ہوئی ہیں اور وہ واپس جا کر صدر ٹرمپ کو اپنا تجزیہ پیش کریں گے جبکہ یہاں وہ اپنا مکمل ہوم ورک کر کے آئے ہیں جس پر ہمیں حیرت بھی ہوئی کہ گذشتہ دو دنوں سے جو دہلی میں ہو رہا ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پہلے شہریت قانون کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا گیا اور اب مسئلہ کشمیر سے نکل کر دہلی تک پہنچ گیا ہے جہاں 20 سے زائد لوگ شہید ہو چکے ہیں۔بھارت میں کشیدگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس کے غنڈے مسجدوں کو شہید کر رہے ہیں اور مسجدوں پر آر ایس ایس کے جھنڈے لگائے جا رہے ہیں، ہمیں اس صورت حال پر بہت تشویش ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے دہلی کی صورت حال پر صدر ٹرمپ کا دورہ ختم ہونے کے بعد ٹویٹ کے ذریعے دو ٹوک پیغام دیا ہے تاہم صدر ٹرمپ اگر بھارت سے یہاں آتے تو بالکل اچھا نہیں تھا، اس سے ایسا لگتا کہ وہ گونگلو سے مٹی اتارنے آئے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کا پاکستان کا ایک خصوصی دورہ ہو گا۔وزیرخارجہ نے کہا کہ وزیراعظم (آج) جمعرات کو ایک روزہ دورے پر قطر جا رہے ہیں جہاں امیر قطر سے ملاقات کریں گے۔