اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)جاوید چودھری اپنے کالم ’’کوہ طور سے اترتے ہوئے‘‘میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔کمبل اوڑھ کر کوہ طور پر سونے کی روایت یہودی ہے‘ یہ لوگ شادی کے فوراً بعد کوہ طور پر آتے تھے اور اپنی پہلی رات طور کے راستے میں کمبل کے اندر گزارتے تھے‘ ان کا خیال تھا یہ عمل صالح اولاد کے لیے ضروری ہے‘ یہ روایت آج بھی قائم ہے‘ طور کی چوٹی دنیا کا واحد مقام ہے
جہاں تینوں آسمانی مذاہب کے زائرین اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں کوئی بندہ رہتا ہے اور نہ کوئی بندہ نواز لیکن جوں جوں سورج چڑھتا جاتا ہے اور لوگ طور سے نیچے اترتے جاتے ہیں‘ یہ لوگ توں توں دوبارہ یہودی‘ عیسائی اور مسلمان ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ طور کے دامن میں سینٹ کیتھرائن پہنچ کریہ دوبارہ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں‘ یہ صرف کوہ طور کی برکت ہے چند لمحوں کے لیے تینوں مذاہب کے درمیان موجود دیواریں گرجاتی ہیں اور اللہ کے بندے صرف اللہ کے بندے بن جاتے ہیں۔طور سے واپسی کا سفر چڑھائی سے زیادہ مشکل ہوتا ہے‘ زائرین کھلی آنکھوں سے خطرناک سیڑھیاں اور ہولناک گھاٹیاں دیکھتے ہیں اور ہر بار رک رک کر یہ سوچتے ہیں کیا کل رات ہم اس مقام سے بھی گزرے تھے اور یہ سوچ کر ان کی روح تک کانپ جاتی ہے‘ پورے پہاڑ پر گھاس کا تنکا تک نہیں ہوتا‘ کوئی پرندہ اور کوئی جانور بھی نہیں تھا اور پانی کا کوئی چشمہ بھی نہیں تاہم اس بار چوٹی پر ایک پرندہ نظر آیا اور ہمارے ایک ساتھی نے اس کی ویڈیو بنا لی۔