اسلام آباد (این این آئی) نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق نے کہاہے کہ نئے آرڈیننس کے تحت اب ٹیکس اور سرکاری بقایا جات وغیرہ کے ریفرنسز اب نیب کے دائرہ کار میں نہیں ہوں گے۔ ایک انٹرویو میں نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق نے بتایا کہ اس نئے آرڈیننس کے تحت اب ٹیکس اور سرکاری بقایا جات وغیرہ کے ریفرنسز اب نیب کے دائرہ کار میں نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہاکہ اس طرح کے جو بھی ریفرنسز نیب میں جاری ہیں،
وہ عام عدالتوں میں چلے جائیں گے اور یہ خاصی بڑی تعداد میں ہیں اور زیادہ تر کاروباری افراد کے ہوں گے۔انھوں نے بتایا کہ نیب اب بھی پبلک آفس ہولڈر یا سرکاری عہدیدار کی حد تک تو ایکشن لے سکتا ہے مگر نجی اداروں یا اشخاص کے خلاف ایکشن نہیں لے سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بہت سے کیسز نجی کمپنیوں یا افراد کے ہوتے تھے، اس حوالے سے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) کو اعتراض تھا، اب یہ نیب کے دائرہ کار سے نکل گئے ہیں، اب ایس ای سی پی کا صرف وہی کیس نیب کے پاس جائے گا، جس میں سرکاری عہدیدار کا نام شامل ہو گا۔ انھوں نے بتایا کہ نئے ترمیمی آرڈیننس کے بعد کسی سرکاری عہدیدار پر بھی انتظامی کوتاہیوں پر اختیارات کے غلط استعمال کا کیس نہیں بنایا جا سکتا جبکہ اختیارات کے غلط استعمال کو ثابت کرنے کے لیے پہلے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اس غلط استعمال کے ذریعے ناجائز اثاثے بنائے گئے ہیں اور وہ ناجائز اثاثے ان کی جائز آمدن سے زیادہ ہیں چنانچہ اختیارات کے ناجائز استعمال کے کیس میں بھی آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات کرنی پڑیں گی۔انھوں نے بتایا کہ اس سب کے بارے میں ثبوت نیب پیش کریگا’اس سے پہلے اختیارات کے غلط استعمال کے حوالے سے خود فائدہ اٹھایا نہ بھی ہوتا تب بھی کیس بنتا تھا، پھر بھلے ہی مذکورہ افسر کے غلط اقدام سے فائدہ کسی اور نے اٹھایا ہو۔یہ تاثر کہ نیب کے لیے اس ترمیم کے بعد اب وائٹ کالر جرائم ثابت کرنا مشکل ہو جائیں گے،
اس پر پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اور نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر نے کہاکہ نیب کے لیے کوئی کیس ثابت کرنا واقعتاً مشکل ہونا چاہیے کیونکہ ان کے نزدیک اس سے نیب اپنا ہوم ورک کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ نیب نے اپنی کارروائیوں سے سرکاری افسروں کے اقدامات اور فیصلہ سازی کو ختم کر کے رکھ دیا تھا اور حکومت کو یہ کام بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ان کا کہنا تھا کہ بیوروکریٹس کو فیصلے لینے چاہئیں، اور انھیں اپنے دائرہ کار میں موجود چیزوں کے بارے میں فیصلہ لینے کی آزادی ہونی چاہیے،
ورنہ سرکاری افسر جائز فیصلہ کرے تو بھی اس پر کرپشن کا کیس بنا دیا جاتا ہے۔عمران شفیق کے مطابق پہلے نیب کو صرف اختیارات کرپشن کے خلاف تحقیقات کے تھے، ٹیکس معاملات بنیادی طور کرپشن میں نہیں آتے جب تک کہ اس میں اختیارات کے غلط استعال کا معاملہ نہ ہو۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس بچانا الگ چیز ہے اور کرپشن الگ چیز ہے، ٹیکس بچانا فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کا معاملہ ہے، نیب نے اپنے دائرہ کار سے یہی تجاوز کیا ہے جس کی وجہ سے انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ان کی رائے میں احسن اقبال پر نیب میں جاری کیس پر اس نئی ترمیم کا اطلاق ہو گا
کیونکہ ان پر بنیادی طور پر کیس انتظامی کوتاہی کا ہے اور کیس ابھی تفتیشی مرحلے میں ہے، چنانچہ اب نیب کو اس حوالے سے مکمل تحقیق کرنی پڑیں گی۔انہوں نے کہاکہ چونکہ اختیارات کے غلط استعمال کی وضاحت ہی بدل دی گئی ہے تو اس کا اطلاق سب پر ہو گا۔ ’ایسا نہیں کہ کچھ افراد پر اس کا اطلاق ہو اور کچھ پر نہ ہو،اس حوالے سے عرفان قادر کی بھی کم و بیش یہی رائے ہے۔بیوروکریٹس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اختیارات کا غلط استعمال جو کہ ویسے ہی غلط ہے، لیکن اختیارات استعمال کرنے میں ناکامی سے یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے کرپشن کی ہے اگر اس میں کوئی کک بیک یا کرپشن کے شواہد نہیں ہیں۔
روزانہ سرکاری ملازمین بہت سے فیصلے لیتے ہیں جس میں ان کی دو تین رائے ہو سکتی ہے، اور نیب جو اس معاملے پر کوئی مہارت ہی نہیں رکھتا وہ کہہ دے کہ یہ کرپشن ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’احسن اقبال، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی یا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے کیسز فیصلہ سازی سے متعلق ہیں، یہ اگر قانون میں تبدیلی نہ بھی آتی تب بھی غلط تھا کیونکہ ماضی میں ایسے زیادہ تر کیسز بری ہونے پر ہی منتج ہوئے ہیں۔اس حوالے سے عمران شفیق نے کہاکہ اس ترمیم کا فائدہ تو کاروباری افراد کو یہ ہو گا کہ کوئی پرائیوٹ آدمی اب نیب کے دائرہ کار میں نہیں رہے گا اور نجی ٹرانزیکشنز وغیرہ میں نیب تب تک دخل نہیں دے سکتا جب تک کہ
وہ عوام سے بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی نہ ہو، مثلاً ڈبل شاہ یا مضاربہ سکینڈل جیسے کیس، اور اس سے ایس ای سی پی اور ایف بی آر اب مضبوط ہوں گے مگر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیب نے تو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور وہ مختلف اداروں کے دائرہ کار میں تجاوز کرتے ہوئے اثرانداز ہوئے، اسے قانون سازوں کی جانب سے چیک کرنے کی ضرورت تھی مگر جو اب ہوا ہے اس نے نیب کا بنیادی ڈھانچہ، دائرہ کار ختم کر دیا ہے اور نیب کے لیے پیمانے بہت بڑھا دیے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی انتہا تھی اور یہ بھی انتہا ہے، یہ ایک این آر او کی صورت ہے اور جو تمام لوگ اختیارات کے غلط استعمال کے کیسز بھگت رہے تھے، انھیں اس کی دوبارہ وضاحت کر کے اسے ختم کر دیا گیا ہے
مگر عرفان قادر اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ نیب کے 2003 سے سنہ 2006 کے دوران پراسیکیوٹر جنرل تھے، اس وقت کسی کے خلاف بھی کیس نہیں بنایا جاتا تھا جب تک کہ اختیارات کے غلط استعمال کے ساتھ ساتھ کرپشن نہیں ہوتی تھی،جب وہ پراسیکیوٹر جنرل تھے، اس وقت چیئرمین ریلوے اور چیئرمین سی ڈی اے نے انھیں خطوط لکھ کر اْن اقدامات کے حوالے سے رہنمائی چاہی تھی جو کہ ان کے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں تھے۔’اس پر میں نے ان کی حوصلہ افزائی کی کہ انھیں وہ اقدامات ضرور کرنے چاہئیں جو ان کے دائرہ کار میں ہیں اور اس حوالے سے ان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جہاں کرپشن ہوتی ہے وہاں وہ ہوتی ہوئی نظر آ جاتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اسے ثابت کرنا مشکل ہے تو ایسے لوگوں کو نیب میں رہنا نہیں چاہیے۔