بغداد(این این آئی)عراق کے جنوبی علاقوں میں بڑے بڑے حکومت مخالف اور پرتشدد مظاہروں کے بعد دارالحکومت بغداد میں ہزاروں مظاہرین نے احتجاجی جلوس نکالا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر اشک آور گیس کی شیلنگ کی جس کے نتیجے میں ایک
خاتون سمیت کم سے کم تین افراد مارے گئے۔عرب ٹی وی کے مطابق وسطی بغداد میں تحریر اسکوائر میں ہزاروں افراد نے احتجاجی دھرنا دیا۔ مظاہرے میں ہزاروں افراد شامل تھے جن میں بڑی تعداد میں خواتین بھی شریک تھیں۔عراق کے سابق مصلوب صدر صدام حسین کے خاتمے کے بعد بغداد میں یہ حکومت مخالف سب سے بڑا مظاہرہ تھا جس میں دسیوں ہزار افراد نے شرکت کی ہے۔ مظاہرین موجودہ سیاسی نظام اور حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کررہے تھے۔متعدد مظاہرین نے میسان گوعرنری میں البرزکان آئل فیلڈ البزارکان کو بند کردیا اور کارکنوں کو اس تک رسائی سے روک دیا۔مظاہرین نے بصرہ میں ام قصر بندرگاہ کا دروازہ بند کردیا اور عوامی مطالبات کی تکمیل تک اپنے دھرنے اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔یکم اکتوبر کے بعد سے عراق میں بڑے پیمانے پر احتجاج دیکھنے میں آیا، چند دن کی خاموشی کے بعد گزشتہ روز یک بار پھر بڑے پیمانے پرملک گیر مظاہرے شروع ہوگئے۔ مظاہرین موجودہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کا تختہ الٹنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔عوامی تحریک نے سب سے پہلے بنیادی خدمات کی عدم فراہمی ، وسیع پیمانے پر بے روزگاری اور سیاسی حکام کی غفلت اوربحرانوں کا حل تلاش کرنے میں ناکامی کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ بعد میں یہ احتجاج حکومت کی تبدیلی اور ایرانی مداخلت کے خاتمے کے مطالبیکی شکل اختیار کرگیا ہے۔