کراچی(آن لائن) عالمی ادارۂ صحت نے دنیا بھر میں لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہوئے خودکشی کرنے کے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حقوقِ انسانی کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کو ان اسباب کے خاتمے کے لئے میدان میں آنے کو کہا ہے جو خودکشی کا باعث بنتے ہیں۔اس موقع پربقائی میڈیکل یونیورسٹی سے وابستہ دماغی امراض کے ماہر پروفیسرڈاکٹر انعام رسول نے کہا کہ خودکشی اب ایک معمول کا عمل بن چکی ہے۔
تقریباً 12فیصد لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔دوران تعلیم طلبا اپنے بہتر مستقبل کی جانب زیادہ حساس ہوتے ہیںناکامی کے خوف سے اس طرف راغب ہوجاتے ہیں۔افراد میں خودکشی کا خیال، منصوبہ بندی ارادہ، حالات کا دبائو، مذہبی عدم استحکام جیسے پانچ عوامل ہوں جو انسان کو خودکشی کر طرف لے جاتے ہیں اور اگر کسی مریض میں ان پانچ میں سے3اسباب پائے جاتے ہیں تو یہ خودکشی کرنے کی خطرناک علامت ظاہر ہوتی ہے۔ ان اسباب کی نفی کے لئے بقائی میڈیکل یونیورسٹی میں طلبہ میں کونسلنگ کرنی چاہئے اور طلبہ ، اساتذہ، فیکلٹیز ممبران کے مابین مذاکروں سے مثبت حالات ہوسکتے ہیں اورہم معمار وطن کو خودکشی جیسی لعنت سے تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر عذرا شاہین اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ ذہنی امراض بقائی میڈیکل یونیورسٹی نے عالمی یومِ دماغی صحت کے موقع پرمنعقدہ ورکشاپ برائے عدم خودکشی کے رجحان کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں معاشرتی سطح پر مثبت اقدامات کے ذریعے خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا تدارک کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ معاشرتی اور معاشی مسائل کو اپنی اقدار کے مطابق دیکھنا چاہئے۔ اس سال ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے عالمی یومِ دماغی صحت کے موقع پر ’’خودکشی‘‘ کو خصوصی موضوع بناکر اس پر متوجہ کرانے کا احساس دلایا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خودکشی کرنے والا’ خودکشی کی نیت کیوں کرلیتا ہے‘۔
حالات سے مجبور ہونے کے باوجود اس کا یہ اقدام انسان کو قتل کرنے کے مترادف ہے یقینا خودکشی ایک پس منظر کی عکاس ہوتی ہے جس کا کوئی نہ کوئی ایسا سبب ضرور ہوتا ہے جو انسان کو مرنے پر مجبور کرتا ہے۔ کوئی فرد اپنا مستقبل تاریک دیکھتا ہے تو وہ حالات کو تبدیل کرنے کے بجائے جذبات سے بے قابول ہوکر خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے عوامل معاشرتی سطح پر
اس کے غیر ہموار ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ خودکشی کرنے کے بے شمار عوامل ہوتے ہیں جن میں مقاصد کے حصول میں ناکامی، خاندانی اور معاشرتی پابندی ، اکیلے پن کا احساس جیسے مسائل کے علاوہ عائلی معاملات وغیرہ شامل ہیں۔یہ سب مایوسی پیدا کرنے والے اسباب ہیں جب کہ مذہبی طورپر مایوسی کفر اور خودکشی حرام ہے۔انہوں نے کہا کہ خودکشی کے بڑھتے ہوئے
رجحان میں سوشل میڈیا بھی برابر کا شریک ہے۔ اہلیت کی ناقدری، بیروزگاری، مہنگائی، حقوق کی پامالی بھی انسان کو خودکشی کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ گھریلو مسائل یا باہمی رنجشیں بھی افراد کو خودکشی کی طرف لے جاتی ہیں۔ کامیاب خودکشی میں خواتین کی تعداد نسبتاً زیادہ ہوتی ہے جب کہ مرد حضرات کوشش کے باوجود خودکشی میں بالعموم ناکام نظر آتے ہیں۔ باضابطہ اعداد و شمار ہونے کے
باوجود کہا جاتا ہے کہ ہر گھنٹے میں ایک خودکشی معمول کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ معالجین اور ماہرین سماجیات یہ جان لیں کہ جب کوئی فرد معمول سے ہٹ کر مرنے کی بات کرے تو اسے اہمیت دینی چاہئے ممکن ہے وہ خودکشی کرنے کا سوچتا ہو۔ اس کی گفتگو سے اس کی خودکشی کے امکانات ظاہر ہونے پر اسے حوصلہ دے کر یا اس کے مسئلے کے حل میں مدد دے کر باز رکھا جاسکتا ہے۔
اس طرح ہم ایک انسانی جان کو بچاکر نسلوں کو محفوظ کرسکتے ہیں۔ اس طرح یہ نفسیاتی مسئلہ بھی اپنی جان لینے کا سبب ہوسکتا ہے۔ کچھ افراد کو معاشرتی نفسا نفسی اور ذہنی رسہ کشی جیسے مسائل نفسیاتی مریض بنادیتے ہیں اور وہ احتجاجاً خودکشی کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ ہم ابتدائی مراحل میں بذریعہ علاج خودکشی کا سدباب کرسکتے ہیں۔بہت سے خودکشی کے واقعات میں انسان اپنے آپ کو
مارکر دوسروں کو زندگی دینے کا بھی سوچتا ہے۔ ہماری نظر میں اس طرح خود جان دے دینا بے بسی یا کم ہمتی کے مترادف ہوتی ہے۔ بعض خودکشی کی وجوہات میں ذہنی دبائو، نا امیدی، بیماری، مذہب سے دوری کی علامتیں بھی عیاں ہوتی ہیں جنہیں بروقت سمجھنے سے قاصر رہتے ہوئے انسان لقمہ اجل بن جاتا ہے۔ ہم پوسٹ مارٹم رپورٹ اور تحقیق سے خودکشی کی علامتوں
میں نشہ کی عادت اور مالی معاملات بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ دل کے معاملات بھی خودکشی کی وجہ بن سکتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ مرد حضرا ت میں خودکشی کا رجحان 45کی عمر میں جب کہ خواتین عموماً55سال کی عمر تک خودکشی کا ارادہ کرتی