پیر‬‮ ، 15 ستمبر‬‮ 2025 

مخالفین کو قیدکرنے والا اب خودسلاخوں کے پیچھے

datetime 19  اپریل‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

خرطوم(این این آئی)خرطوم کی بدنام زمانہ جیل ’’کوبر‘‘ میں معزول صدر عمر البشیر کی منتقلی کے بعد یہ جیل عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے ۔اسے حالات کی ستم ظریفی کہیں یا قدرت کا قانون ، یہی وہ جیل ہے جس میں عمر البشیر سیاسی مخالفین کو قید کیا کرتے تھے۔

لیکن آج وہ خود اس کال کوٹھری میں بند ہیں۔کوبر جیل کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ روایات کے مطابق یہ جیل1903ء میں برطانوی استعمار کے دوران تاج برطانیہ کے مخالفین کو قید کرنے کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ پانچ ہزار مربع میٹر رقبے پر پھیلی یہ عمارت باہر سے برمنگھم جیل سے مشابہت رکھتی ہے۔تاج برطانیہ کی نمائندگی کرنے والے جنرل کشنر کے حکم پرتعمیر ہونے والی جیل کی شاندار افتتاحی تقریب ہوئی مگر انہیں ملکہ برطانیہ نے انگلینڈ طلب کرلیا تھا جس کی وجہ سے وہ تقریب میں شرکت نہ کرسکے۔ پہلے جیلر کا نام کوپر(cooper) تھااور اسی مناسبت سے جیل کو کونبر جیل کہاجاتا ہے۔ واضح رہے کہ عربی میں (پ) کو (ب) پڑھا جاتا ہے۔وہ قیدی جنہیں سب سے پہلے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا ان میں تاج برطانیہ کی مخالفت کرنے والے سیاسی قیدی تھے۔ بعد ازاں نمایاں قیدیوں میں سے ایک بڑی کھیپ 1971ء میں اس میں بھیجی گئی جو شاہ مصر کے مخالفین میں سے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیل کے اردگردپورا محلہ آباد ہوگیا جس کا نام ہی کوبر پڑ گیا۔ بعدازاں حکومت نے محلے کا نام بدل کرعمر المختار رکھ دیا۔1989ء میں معزول صدر عمر البشیر کی قیادت میں فوجی انقلاب آیا جس میں عمر البشیر نے منتخب حکومت سے تختہ الٹ کر تمام سیاسی مخالفین کو کوبر بھیج دیا۔اس جیل کے 14مختلف سیکشن ہیں لیکن بدنام زمانہ سیکشن وہ ہے جس میں سزائے موت کے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔سیاسی قیدیوں کا بھی الگ سے سیکشن ہے جہاں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والوں کی تعداد کا کسی کو علم نہیں۔حالیہ انقلاب کے بعد فوجی کونسل نے اس سیکشن میں موجود قیدیوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی کی ہے۔سوڈانی مبصرین کا کہناہے کہ معزول صدر عمر البشیر کو کوبر جیل میں رکھ کر حکومت یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ نئی حکومت انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے کسی کو بھی استثنیٰ نہیں دے گی۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



انجن ڈرائیور


رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…