واشنگٹن(این این آئی)امرکی کانگریس کی ایک نو منتخب مسلمان خاتون رکن الھان عمر کی طرف سے اسرائیل اور یہودیوں کے حامیوں کے خلاف آواز بلند کرنے پر انہیں کانگریس میں ان کی اپنی جماعت کی طرف سے بھی سخت تنقید کا سامنا ہے۔ دوسری جانب الھان عمر نے اپنے بیان پر معذرت کرتے ہوئے
الفاظ واپس لے لیے ہیں۔ معافی کے باوجود الھان کے کانگریس سے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق کے مطابق امریکی ریاست مینیسوٹا سے کانگریس کی رکن منتخب ہونے والی 37 سالہ الھان عمر نے ایک بیان میں اسرائیل کی حمایت کو ‘یہود دشمنی’ کے مترادف قرار دیا تھا۔ان کے اس بیان پر کانگریس کیدونوں ایوانوں اور دونوں جماعتوں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹس میں سخت غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ڈیموکریٹس کی طرف سے تنقید کے بعد الھام عمر نے کہا ہے کہ ان کے بیان کا مقصد اپنے ووٹروں یا تمام یہودیوں کی دل آزاری کرنا نہیں تھا۔صومالی نڑاد الھان عمر پر تنقید کرنے والے ارکان کا کہنا ہے کہ الھان نے ٹویٹر پر ایک ٹویٹ میں لکھا کہ امریکا، اسرائیل تعلقات عامہ کمیٹی امریکا میں ایک پریشر گروپ ہے جو اسرائیل کی بے جا حمایت کے لیے سرگرم ہے۔ یہ گروپ امریکی سیاست دانوں کے ذریعے اسرائیل کی مالی مدد کا ایک ذریعہ ہے۔امریکی سینٹ کی چیئرپرسن نینسی پلوسی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی دوسری قیادت کی طرف سے بھی الھان عمر کے بیان پر سخت ردعمل سامنے آیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہود دشمنی کی مذمت اور اس کا ہر سطح پر بلا تفریق مقابلہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ امریکا میں آزادی اظہار رائے کی اقدار کا احترام کیا جاتا ہے اور اسرائیل کے خلاف بھی آئینی حدود میں رہ کر تنقید کی جا سکتی ہے مگر خاتون رکن کانگریس الھان عْمر نے اسرائیل کے حامیوں کے حوالے سے جو انداز بیان اپنایا ہے وہ حد درجہ شرمناک ہے۔الھان عمر کے بیان پر امریکی صدر نے اپنے ردعمل میں ان سے کہا کہ اسرائیل کے حامیوں پر تنقید کرنے والی الھان اپنا چہرہ بھی دیکھے اور اپنے آپ سے شرمندہ ہو۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ الھان عمر کو اسرائیل کے حامیوں کے خلاف نازیبا الفاظ کے استعمال پر معذرت کافی نہیں۔