اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی اتحاد برائے بہتر غذا کے کنٹری ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ کم عمری میں شادی اور لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو کم غذا دینا بچوں میں نامکمل نشوونما کی اہم وجہ ہیں۔ ڈاکٹر قیصر منیر پاشا نے یہ بات وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) کے زیر اہتمام
’پاکستان میں نوعمری میں غذا‘ کے موضوع پر ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکوں کو عام طور پر لڑکیوں سے زیادہ غذا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے لڑکیاں کئی شعبوں میں لڑکوں کا مقابلہ نہیں کرپاتیں جبکہ نامکمل نشوونما کی حامل مائیں صحت مند بچے کو بھی جنم نہیں دے پاتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں 41 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے اور سب سے بری صورتحال بلوچستان میں ہے، ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرانی ہوگی کہ خواتین اور بچوں کو پوری طرح سے غذا ملے کیونکہ اس سے زچگی کے وقت ماؤں اور بچوں کی ہلاکت کی شرح کم کی جاسکتی ہے‘۔ صحت کے امور کے ماہر ڈاکٹر بشیر خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ پیدائش کے بعد بچوں کے پہلے ایک ہزار دن غذا کی ضرورت کے حوالے سے انتہائی حساس ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خطرناک وقت ہے جس میں غذائی قلت بالخصوص لڑکیوں میں زیادہ ہے۔ وزارت این ایچ ایس کے نمائندے ڈاکٹر خواجہ مسعود کا کہنا تھا کہ نو عمری میں غذا کے حوالے سے پلیٹ فارم کا قیام ہماری کامیابی کا ثبوت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا قیام نو عمری میں غذائی قلت کے حوالے سے اہم شراکت داروں کو صرف یکجا کرنا نہیں بلکہ ملک میں اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا بھی ہے‘۔ تقریب کے دوران بتایا گیا کہ پاکستان پر غذائی قلت کا بڑا بوجھ ہے جس سے ہر سال تقریباً 7.6 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا 3 فیصد خرچ ہوتا ہے‘۔