ہفتہ‬‮ ، 05 اکتوبر‬‮ 2024 

خواجہ صاحب آپ اگر محکمہ صحت کو سنبھال نہیں سکتے تو چھوڑ دیں، صوبائی وزیرخواجہ سلمان رفیق سپریم کورٹ میں جواب طلبی پر کیا کہتے رہے؟افسوسناک صورتحال

datetime 7  اپریل‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور (این این آئی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں پیش کی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے تفصیلات ویب سائٹ پر ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام بہتری کے لئے 15روز میں محکمہ صحت کو تجاویز جمع کروائیں،عدالت نے حکومت سے تفصیلی رپورٹ کے ساتھ نشتر میڈیکل کالج کے وائس چانسلر کی تعیناتی اور تمام یونیورسٹیز کی سرچ کمیٹیوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے

کہ حکومت کی صحت کے معاملے میں کارکردگی ناقص ہے ،عدالت کو جو منصوبے بتائے جا رہے ہیں یہ مستقبل کے ہیں بتایا جائے کہ پہلے کیا کچھ کیا،جب تک آگے کام نہیں ہو گا تب تک تعریفی کلمات نہیں کہوں گا۔گزشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 2رکنی بینچ نے لاہور رجسٹری میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔صوبائی وزیر سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن خواجہ سلمان رفیق ، سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن نجم احمد شاہ اور چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید سمیت دیگر افسران عدالت میں پیش ہوئے ۔سماعت کے آغاز پر عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایاگیا کہ چیکنگ کے دوران معلوم ہوا کئی ہسپتالوں میں مکمل ڈاکٹر ہی نہیں ہیں، ہسپتالون کے فضلے کو تلف کرنے والی مشین انسنیریٹر کی چیکنگ کے دوران ہمیں لکڑی کی راکھ دکھائی گئی جو ہسپتال ویسٹ کی نہ تھی۔عدالتی کمیسن نے بتایا کہ قصور کے انسیزیٹر کے لئے 120بیگز بھیجے انیں 80موصول ہوئے ۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے خواجہ سلمان رفیق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سنیں ذرا، آپ کے محکمہ صحت میں کیا کیا چیزیں سامنے آرہی ہیں، اس پر خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ ہم بہت بہتر انتظامات کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے جواباًکہا کہ یہ تو آپ روز جلسوں میں بتاتے ہیں،

ہمیں ہمارے سوال کا جواب دیں، فضلہ ٹھکانے لگانے والی مشینوں کی ناقص صورتحال کے بارے میں بتائیں۔محکمہ صحت مکمل فلاپ ہوگیا ہے، اس کا تو ککھ بھی نہیں رہا، آپ دس سال سے ایڈوائزر ہیں، کیا کام کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں؟۔دوران سماعت چیف جسٹس نے شلوار قمیض پہنے ڈاکٹر کے آپریشن کا نوٹس لیا اور اپنے فون پر خواجہ سلمان کو شلوار قمیض پہنے ڈاکٹر کی تصویر دکھائی۔چیف جسٹس کے تصویر دکھانے پر خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ یہ ڈاکٹر میرے ماتحت نہیں ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ تو پھر آپ کس چیز کے وزیر ہیں؟ ۔ خواجہ صاحب آپ اگر محکمہ صحت کو سنبھال نہیں سکتے تو چھوڑ دیں، پنجاب میں گائنی کی سیٹ پر کوئی اور ڈاکٹر لگا دیا جاتا ہے، دس دس لاکھ پر لوگ رکھ لیے ہیں، ایک وزیر کے پرسنل سیکرٹری کو بھی تین لاکھ میں لگا دیا، سفارش پر لوگوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے، کیا کام کر رہے ہیں، کس کھاتے میں ایسے لوگوں کو لاکھوں روپے تنخواہ پر رکھا ہوا ہے، خواجہ سلمان رفیق صاحب آپ وزیراعلی سے بات کریں گے یا ہم بلا لیں،

ملک میں بادشاہت نہیں ہے،کروڑوںں کی بندر بانٹ نہیں کرنے دیں گے۔صوبائی وزیر خواجہ سلمان رفیق نے ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے تعاون اور مزید مہلت کی استدعا کی تو عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو تعاون کرتے ہیں اسی لیے ہسپتالوں کا دورہ کیا ہے مگر آپکے مہربان تو کہتے ہیں کہ ہمیں ہسپتال جانے کی بجائے کوئی اور کام کرنا چاہیے، میں اور کام بھی کر رہا ہوں اور آپ کی حکومت کو بھی دیکھ رہا ہوں۔عدالت نے استفسار کیا کہ 20 ارب روپے کا کڈنی ٹرانسپلانٹ منصوبہ لگا دیا

وہی رقم میو ہسپتال اور سروسز ہسپتال کو بہتر کرنے میں لگاتے ۔اربوں روپے لگا دئیے لیکن نہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت بدلی اور نہ لوگوں کا علاج ہو رہا ۔آپ لوگوں کی صحت سے کھیل رہے ہیں، ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے علاوہ آپکو کوئی کام نہیں، وزیر آباد کا ہسپتال اس لیے بند رہا کہ وہ پرویز الٰہی کا پراجیکٹ تھا،وزیر اعلی شہباز شریف کو بلا لیتا ہوں اور پھر انکی کارگردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔جس پر خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ اگر آپ ناراض ہوں گے تو کیسے صورتحال بتا پاؤں گا،

یہ میری بھی عدالت ہے، پنجاب حکومت نے جو اچھے کام کیے ہیں آپ انکی تعریف بھی کریں، آپ کے ہسپتالوں کے دورے کرنے سے ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔دیانتداری سے دن رات کام کررہے ہیں ، بیمار ہو گئے ہیں ۔سلمان رفیق نے بتایا کہ چلڈرن ہسپتال کو 500بیڈز سے 1200تک لے گئے ہیں، ہمیں آپ کی سپورٹ چاہیے مزید کام بہتر کریں گے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کیا بیمار ہونا ہے لوگوں کو بیمار کر دیا،جب تک آگے کام نہیں ہو گا تعریفی کلمات نہیں کہوں گا۔جائیں وزیراعلیٰ پنجاب کو لے آئیں

وہ دیکھیں یہاں پر کیا ہو رہا ہے،چودہ آنے کا کام نہیں کیا اور تعریفی کلمات کا مطالبہ کرتے ہیں ،وزیراعلیٰ پنجاب بھی بہت کام کرتے ہیں جس کے باعث وہ بیمار ہو چکے ہیں۔دوران سماعت چیف سیکرٹری اور سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر نے کارکردگی رپورٹ پیش کی جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو منصوبے بتائے جا رہے ہیں یہ مستقبل کے ہیں بتایا جائے کہ پہلے کیا کچھ کیا۔ الیکشن قریب آنے اور عدالتی نوٹس پر ہی منصوبے شروع ہو گئے ۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سیکرٹری صحت نجم احمد شاہ سے استفسار کیا کہ آپ کس محکمے سے سیکرٹری صحت بنے ،جس پر سیکرٹری صحت نے بتایا کہ میں قائد اعظم سولر کمپنی سے سیکرٹری صحت تعینات ہوا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمپنی کا کتنا نقصان کر کے ادھر آئیں ہیں۔ سیکرٹری صحت نجم احمد شاہ نے کہا کہ نقصان نہیں کیا کمپنی فائدے میں جا رہی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ چیک کروا لیتے ہیں کہ وہاں پر کتنے میں منصوبہ لگا ، کیا فائدہ پہنچایا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے

کہ یہاں آکر کئی سالوں کے وعدے کر کے نہیں جانے دیں گے،حکومت کی صحت کے معاملے میں کارکردگی ناقص ہے ،ٹرانسفر پوسٹنگ کے علاوہ اور کیا جا رہا ہے۔سیکرٹری صحت نے بتایا کہ وزیر آباد اور عارف والا کے ہسپتال بھی آپریشنل کر دیئے ہیں۔ دوران سماعت عدالت نے کہا کہ ڈاکٹر فیصل مسعود کو یو ایچ ایس میں تعینات نہیں کیا جا رہا ،جانتے ہیں یو ایچ ایس میں کس کس کی تعیناتی کی جا رہی ہے ،بتا دوں آپ یو ایچ ایس میں کس کو نیا وائس چانسلر تعینات کررہے ہیں،میڈم زہرہ 28ویں نمبر پر سنیارٹی ہے

پھر کیسے ان کی تقرری کا سوچ لیا ۔تمام یونیورسٹیز کی سرچ کمیٹیوں کی تفصیلات لے کر آئیں،دیکھتا ہوں کیسے کوئی میرٹ سے ہٹ کر تعینات ہوتا ہے،جائیں اپنے سیاسی آقاؤں کو بتا دیں کہ عوام کے لئے کچھ کریں۔عدالت نے ہسپتالوں کی حالت زار پر تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے نشتر میڈیکل کالج کے وائس چانسلر کی تعیناتی سے متعلق بھی تفصیلات طلب کر لی ۔عدالت نے ہسپتالوں کی حالت زار سے متعلق کمیٹی کی تفصیلات ویب سائٹ پر ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہسپتالوں کا نظام

اور مریضوں کے لئے سہولیات بہتر بنانی ہیں،عوام بہتری کے لئے محکمہ صحت کو 15روز میں اپنی تجاویز جمع کرائیں ۔دوران سماعت عدالت نے سیکرٹری صحت کی جانب سے کمیشن تشکیل دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی رائے لے کر نظام کو بہتر کرنا ہے،تجاویز پر اعتراضات ، عوامی تجاویز آنے دیں پھر کمیشن کا فیصلہ کریں گے۔ دوران سماعت ایک خاتون محکمہ صحت کے خلاف پھٹ پڑی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کے خلاف خلاف نہ بولیں، ان کی حکومت کے خلاف بولنا ایسا ہی ہے جیسے اپنے گلے میں پھندا ڈالنا ہے ۔



کالم



ہماری آنکھیں کب کھلیں گے


یہ دو مختلف واقعات ہیں لیکن یہ دونوں کہیں نہ کہیں…

ہرقیمت پر

اگرتلہ بھارت کی پہاڑی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت…

خوشحالی کے چھ اصول

وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!(آخری حصہ)

لی کو آن یو اہل ترین اور بہترین لوگ سلیکٹ کرتا…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!

میرے پاس چند دن قبل سنگا پور سے ایک بزنس مین آئے‘…