اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ایم اے سال اول اردو گائیڈ جو کہ یونیورسٹی آف سرگودھا کے جدید نصاب کے عین مطابق ہے، اس کے صفحہ 605 پر ایسے الفاظ ہیں کہ جسے پڑھ کر نوجوان لڑکی اور لڑکے کے جذبات ضرور ابھریں گے، اردو ادب کے نام پر ایسی تعلیم دی جا رہی ہے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
یونیورسٹی میں پڑھایا جانے والا یہ نصاب جذبات میں تلاطم برپا کرنے کا باعث بنے گا، یہ ایک احساس اور جذبے کو خوبصورتی سے بیان کرنے کی کوشش ہے۔ اس کتاب کے صفحہ 605 میں سے کچھ اقتباس پیش ہیں، دیر تک وہ اپنے گھسے ہوئے ناخنوں کی مدد سے چولی کی گانٹھ کھولنے کی کوشش کرتی رہی جو بھیگنے کی وجہ سے بہت زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔ جب تھک ہار کر بیٹھ گئی تو اس نے مراٹھی زبان میں رندھیر سے کچھ کہا جس کا مطلب یہ تھا، ’’میں کیا کروں۔۔۔ نہیں نکلتی۔‘‘ رندھیر اس کے پاس بیٹھ گیا اور گانٹھ کھولنے لگا، جب نہیں کھلی تو اس نے چولی کے دونوں سروں کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اس زور سے جھٹکا دیا کہ گانٹھ سراسر پھیل گئی اور اس کے ساتھ ہی دو دھڑکتی ہوئی چھاتیاں ایک دم سے نمایاں ہو گئیں۔ اس کے آگے جو لکھا گیا ہے وہ یہاں بیان کرنا مناسب نہ ہوگا لیکن مذکورہ الفاظ سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کیسا اردو ادب پڑھایا جا رہا ہے۔ ایم اے سال اول اردو گائیڈ جو کہ یونیورسٹی آف سرگودھا کے جدید نصاب کے عین مطابق ہے، اس کے صفحہ 605 پر ایسے الفاظ ہیں کہ جسے پڑھ کر نوجوان لڑکی اور لڑکے کے جذبات ضرور ابھریں گے، اردو ادب کے نام پر ایسی تعلیم دی جا رہی ہے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ یونیورسٹی میں پڑھایا جانے والا یہ نصاب جذبات میں تلاطم برپا کرنے کا باعث بنے گا، یہ ایک احساس اور جذبے کو خوبصورتی سے بیان کرنے کی کوشش ہے۔