اتوار‬‮ ، 29 ستمبر‬‮ 2024 

پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد دائو پر لگ گیا ملک توڑنے کا خوفناک منصوبہ ، روس کی طرح پاکستان کا بھی شیرازہ بکھیرنے کیلئے جال بچھا دیا گیا،تہلکہ خیز انکشافات سامنے آگئے

datetime 7  مارچ‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) نئی حلقہ بندیاں، ملک توڑنے کا خوفناک منصوبہ، پاکستانی حلقہ بندیوں کیلئے یورپ، امریکہ کے نقشوں کی مدد حاصل کی گئی، برطانوی ہند کے عہد میں راجہ ٹوڈرمل کے فارمولے کو اپنایا گیا، بھارت نے یو این ڈی پی فارمولہ مسترد کردیا، پاکستان نے قبول ک رلیا، 1970کا ڈھانچہ زمین بوس، 1974، 1984، 1988، 2002میں حلقہ بندیاں آبادی کی بنیاد پر ہوئی،

الیکشن کمیشن ارکان کی مدد سے اعتراضات دور کرتا، اب کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ اعتراض منظور کیا جائے یا نہیں، قوم کو سنگین نتائج بھگتنا ہونگے۔ مقامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور محمد دلشاد نے کہا ہے کہ عبوری مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستیں جاری کر دی ہیں۔ قومی اسمبلی کیلئے ملک بھر میں حلقوں کے نمبر تبدیل کر دئیے گئے۔ حلقہ بندیاں شمال سے کلا وائز یعنی گھڑی کی سوئی کے مطابق کی گئی ہیں۔ پشاور کے حلقوں کا آغاز این اے 127سے ہو رہا ہے۔ اسلام آباد کے حلقے این اے 48اور 47کے نمبر اب وزیرستان میں شامل ہو گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کو یو این ڈی پی (اقوام متحدہ کا ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام)کے ماہرین کے مشورے سے کلاک وائز کرکے قوم کو الجھن میں ڈال دیا ہے۔ اس اصول کے تحت حلقہ بندیوں کا بنیادی ڈھانچہ ہی یکسر تبدیل کر کے ابہام کا دروازہ کھول دیا ہے۔ ساری سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو اس بین الاقوامی فارمولہ کی ترتیب ہی سمجھ میں نہیں آئے گی جو سارا ڈھانچہ 1970سے چلا آرہا تھا اس کی عمارت ہی زمین بوس کر دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حلقہ بنیدوں کی معاونت کیلئے لوکل گورنمنٹ کے عملہ سے معاونت حاصل کرنی چاہئے تھی جو صدیوں سے ریونیو کی سرحدیں اور ان کی باریک لکیروں سے واقف ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 220کے تحت جب الیکشن کمیشن آف پاکستان پولنگ کا عملہ صوبائی محکمہ جات سے حاصل کرتا ہے تو لوکل گورنمنٹ کے محکموں سے استفادہ کرنے میں کیا حرج تھا۔ اسی طرح 1970سے پشاور کا حلقہ این اے ون سے شروع ہو تا رہا ہے۔ اب چترال سے شروع کر کے سب کچھ الٹ پلٹ کر دیا گیا ہے۔ یو این ڈی پی کے جن ماہرین نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت کی ہے

ان کے سامنے یورپ اور امریکہ کے نقشے لکھے ہوئے تھے، پاکستان سے ان کو واقفیت نہیں ہے۔ برطانوی عہد حکومت میں بھی راجہ ٹوڈرمل کے ہی فارمولے کو اپنایا گیا تھا اور برطانوی ہند کی حلقہ بندیاں اسی فارمولے کے تحت ہوتی رہیں جو صدیوں سے چلی آرہی تھی۔ ماضی میں1974، 1984اور 2002میں جو حلقہ بندیاں ہوتی رہی ہیں اس کے بنیادی ڈھانچہ کو برقرار رکھتے ہوئے آبادی کی بنیاد پر ہر حلقہ وسیع ہوتا رہا

اور اعتراضات پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے معزز ممبر ہی سماعت کرتے رہے۔اس موقع پر اپنے فیصلے لکھواتے رہے اور نافذ ہوتے رہے۔ اب ان اعتراضات کو دوبارہ کمیٹی کے ارکان کو ریفر کرینگے اور کمیٹی کی صوابدید ہو گی کہ وہ کمیشن کے معزز ممبرکے فیصلے کو قبول کرتی ہے یا پھر ٹیکنیکل طرز پر اپنی رائے کو بہتر سمجھ کر اس کو حلقہ بندیوں میں شامل کر دینگے

اور اعتراض کنندہ کو معلوم ہی نہیں ہو سکے گا کہ اس کے اعتراضات کی قسمت کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان لا محدود اعتراضات کو وقت مقررہ پر نمٹانے کی صلاحیت رکھا ہے یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ اگر اعتراضات کنندوں کو انصاف نہ مل سکا تو وہ اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرینگے۔ اگر عدالتوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مرتب کردہ حلقہ بندیوں کو مسترد کر دیا

تو پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رٹ سوالیہ نشان بن جائے گی اور الیکشن موخر ہونے کے خدشات پیدا ہو جائیں گے۔ یو این ڈی پی کو وضاحت کرنا ہو گی کہ انہوں نے کس قانون کے تحت حلقہ بندیوں کا فارمولہ تیار کیا ہے۔ یو این ڈی پی نے 1980کے وائل میں سوویت یونین کے انتخابی عمل میں مداخلت کی تھی اور اس کے بعد سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔

بھارت میں الیکشن کے لائحہ عمل میں یو این ڈی پی کا کسی قسم کا بھی عمل دخل نہیںہوتا اور غیر ملکی امداد سے بھی گریز کیا جاتا ہے۔ اس طرح کا فارمولہ یو این ڈی پی نے مئی 2013کے انتخابات میں دیا تھا جو 11مئی کی رات گیارہ بجے ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ اب حلقہ بنیدوں کا فارمولہ بھی اس ڈگر پر چلتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں میں 2حلقہ ایک لاکھ،

7حلقے 10لاکھ جبکہ 23حلقے 9لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل ہیں۔ بلوچستان میں حلقہ بندیوں میں سب سے زیادہ مشکل پیش آئی جہاں کئی حلقے پانچ اضلاع پر مشتمل ہیں۔ ایک ہی صوبے میں مقرر کردہ کوٹے سے زیادہ یا کم آباد پر مشتمل حلقے بھی سامنے آئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی تیار کردہ تجاویز کے مطابق فاٹا کے حلقوں کا کوٹہ 7لاکھ 79ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل ہو گا۔

خیبرپختونخواہ میں سب سے بڑا حلقہ این اے 35بنوں ہے جس کی آبادی 11لاکھ 67ہزار سے زائد ہے۔ اسی طرح پنجاب میں دوسرا بڑا حلقہ حافظ آباد کا ہے جس کی آبادی 11لاکھ 56ہزار سے زائد ہے۔ اسی طرح کچی، جھل مگسی کا حلقہ این اے 262ہے جس کی آبادی 3لاکھ 86ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ سب سے بڑے اور جھوٹے ھلقوں میں سات لاکھ سے زیادہ آبادی کا فرق سامنے آیا ہے۔

خیبرپختونخوا میں حلقوں کیلئے مقرر کردہ کوٹہ 7لاکھ 28ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل تھ تاہم چترال کا حلقہ این اے ون 4لاکھ 47ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس طرح ہری پور کا حلقہ این اے 17دس لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ پنجاب میں کوٹہ 7لاکھ 80ہزار 266مقرر کیا گیا تاہم اٹک این اے 55میں آبادی 9لاکھ 60ہزار سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ جھنگ این اے 114میں 9لاکھ 57ہزار

جبکہ شیخوپورہ کے حلقے این اے 121میں آباد 9لاکھ 19ہزار تجویز کی گئی ہے۔ سندھ میں کوٹہ 7لاکھ 85ہزار مقرر کیا گیا تاہم کشمور حلقہ این اے 197، عمر کوٹ حلقہ این اے 220اور جیکب آباد کا حلقہ این اے 196دس لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہو گا۔ بلوچستان میں حلقہ این اے 268مستونگ، قلات، نوشکی، سکندر آباد 10لاکھ سے زائد جبکہ حلقہ این اے 270پنجگور واشک،

کاران، آواران کا حلقہ نو لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہو گا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق کئی ایسے اضلاع بھی سامنے آئے ہیں جہاں پر اابادی کوٹے سے کم تھی جن میں ضلع قلات، شہید سکندر آباد وغیرہ شامل ہین جبکہ کچھ اضلاع ایسے بھی تھے جہاں پر کوٹے سے زیادہ آبادی تھی۔ اسی صورت میں مستونگ، چنگی، قلات، شہد سکندر آباد اور نوشکی کے اضلاع پر ایک حلقہ تشکیل دیا گیا۔

خاران، واشک، آواران، پنجگور پر بھی ایک حلقہ تشکیل دیا گیا ہے جبکہ لورالائی دوکی، موسیٰ خیل، ہرنائی اور زیارت کی آبادی بھی مقررہ کوٹے سے کم تھی تاہم ان اضلاع پر ایک حلقہ تشکیل دیا گیا۔ زوب ، شیرانی، قلعہ سیف اللہ کو ملا کر ایک حلقہ تشکیل دیا گیا۔ سبی، لہری، کوہلو، برخان اور ڈیرہ بگٹی کے پانچ اضلاع پر ایک حلقہ تشکیل دیا گیا۔ جعفرآباد اور صحبت پور کو ملا کر ایک حلقہ بنایا گیا۔

لسبیلہ کی آبادی کوٹے سے کم تھی تاہم گوادر کے ساتھ ملا کر ایک حلقہ تشکیل دیا گیا۔ 10لاکھ سے زائد والے حلقوں میں ہری پور این اے 17، جیب آباد 196، کشمور این اے 197، عمر کوٹ این اے 220، مستونگ، چاغی این اے 268شامل ہیں۔ نو لاکھ سے زائد حلقون مین این اے 15اپر دیر، کوہاٹ، این اے 32اٹک کے دونوں حلقے این اے 55اور 56، جھنگ این اے 115،ننکانہ صاحب این اے 117،

شیخوپورہ این اے 121، پاکپتن کے دونوں حلقے این اے 145اور این اے 146، لیہ این اے 187اور 188، بدین این اے 229، ٹھٹھہ این اے 232، جامشورو این اے 233، کراچی سائوتھ این اے 246اور ڈیرہ بگٹی ، کوہلو وغیرہ این اے 259شامل ہیں۔ دریں اثنا الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیاں سامنے آنے پر اعتراضاات کا سلسلہ شروع ہو گیا ، چاروں صوبوں میں اس پر بحث چھڑ گئی ہے

بعض سیاسی رہنمائوں نے اسے یکسر مسترد کر دیا، لاہور میں حمزہ شہباز اور کلثوم نواز (نواز شریف)کے حلقے کسی بڑے ردوبدل کے بغیر اپنی شکل میں برقرار رکھے گئے ہیں جبکہ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور عمران خان کا حلقہ تحلیل ہو کر تین حلقوں کو تقسیم کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں کیولری گرائونڈ اور ڈیفنس کے بیشتر علاقے نکال کر انہیں ایک الگ حلقہ قرار دیا گیا ہے

جس کا نمبر این اے 131ہو گا جبکہس ابق این اے 128کو نئی رہائشی سکیموں کی وجہ سے آبادی میں اضافے کو بنیاد بنا کر دو برابر حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ لاہور کے حلقے این اے 123سے لے کر 136تک ہوں گے۔ لاہو رکی پانچ تحصیلوں میں حلقوں کی تقسیم کچھ اس طرح سے سنی تحیصل میں قومی اسمبلی کے چار حلقے آتے ہین جن کے نمرب این اے 12(سابقہ 118)،

این اے 124(سابقہ 119)، این اے 125(سابقہ 120)اور این اے 129(سابقہ 125) ہین۔ این اے 130(سابقہ 126)، این اے 131(نیا حلقہ)، این اے 132(سابقہ 130)تحصیل کینٹ شامل ہین۔ انہوں نے کہا کہ میدانی علاقے میں ایک حلقہ 3لاکھ آٹھ ہزار کی آبادی کا بنایا گیا۔ ایک یونین کونسل کو اٹھا کر دوسرے حلقے میں ڈال دیا گیا۔ سارے صوبے سے اس پر اعتراضات آئیں گے

جنہیں یہ دو مہینے میں نہیں سن سکتے اس کا مطلب ہے کہ الیکشن کو تاخیر کا شکار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ این اے ون پشاور میں تھا تو کیا ضرورت تھی چترال میں لے جانے کی، حلقہ بندیوں پر ایک ضلع 50، 60اعتراضات الیکشن کیسے سنے گا۔ جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد نےکہا کہ بلوچستان میں انتخابی حلقہ بندیوں کو حسب روایت اسلام آباد میں

بیٹھ کر نقشوں کی مدد سے مرتب کیا گیا ہے جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہین۔ اس طرح حلقہ بندی سے اعتراضات اور پھر عدالتوں میں کیسز کی بھرمار ہو گی اور خدانخواستہ عام انتخابات کا انعقاد موخر ہونے کا خدشہ ہے۔ قومی وطن پارتی کے چیئرمین آفتاب احمد شیرپائو نے الیکشن کمیشن کی طرف سے نئی حلقہ بندیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے امیدواروں کیلئے مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا ہوںگی ۔

انہوں نے کہا کہ نئی حلقہ بندیاں جمہوری اصولوں اور زمینی حقائق کے تقاضوں کے سراسر منافی ہیں جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔

موضوعات:



کالم



خوشحالی کے چھ اصول


وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!(آخری حصہ)

لی کو آن یو اہل ترین اور بہترین لوگ سلیکٹ کرتا…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!

میرے پاس چند دن قبل سنگا پور سے ایک بزنس مین آئے‘…

سٹارٹ اِٹ نائو

ہماری کلاس میں 19 طالب علم تھے‘ ہم دنیا کے مختلف…

میڈم چیف منسٹر اور پروفیسر اطہر محبوب

میں نے 1991ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے…