جمعرات‬‮ ، 18 دسمبر‬‮ 2025 

ایران کا جلیل القدربادشاہ’’ نوشیروان عادل۔۔۔

datetime 8  جنوری‬‮  2019 |

شائد اختتام زمانہ تک عادل جیسا محرالعقول بادشاہ دوبارہ جنم نہ لے سکے‘ عادل فوت ہواا تو مکہ میں پیغمبر اسلامﷺ کی عمرِ مبارک 9 برس تھی‘ کہتے ہیں کے اسی بادشاہ کی پڑپوتی شہزادی شہربانو سلام اللہ علیہا سے سید نا امام حسینؓ کی شادی ہوئی تھی ‘اسی بدولت اہل ایران نے چودہ سو برس قبل اہل بیت کے لئے محبتوں کے جو چراخ جلائے تھے وہ آج بھی اسی طرح روشن ہیں نوشیرواں عادل جادوئی کردار کا حامل بادشاہ تھا۔

تاریخ تراشنے والے کہتے ہیں کہ اس نے عدل و انصاف کے ساتھ ساتھ ایران کی حریت کا ایسا علم بلند کیا جس کی بدولت سارا منظر بدل گیا۔ عوام والہانہ خود سپردگی کے عالم میں اس کے عشاق ہوئے۔ چند امرائے سلطنت نے سابقہ بادشاہوں کے مکروہ کردار کو اپنانے کی کوشش کی لیکن عادل کے بحرعدل میں کوئی جوار بھاٹا پیدا نہ کر سکے۔ نوشیروان کی بادشاہت سے قبل ایران کا دارالحکومت ’’اسطخر تھا۔ عادل نے آغاز کار میں ہی انقلابی فیصلہ کیا اور دارالحکومت ہمدان میں منتقل کر دیا۔ خوشگورا موسموں کی بدولت ہمدان اس کا پسندیدہ خطہ تھا۔ اس کی ترجیح امن و امان کا قیام تھا ‘ اس نے وقت کی دوسری بڑی سلطنت روم کے ساتھ مصالحت اپناتے ہوئے امن کا معاہدہ کیا اور اندرونی حالت پر پوری توجہ مبذول کر دی۔ ایک مزدوکی گروہ نے ظلم و ستم برپا کر رکھا تھا۔ یہ عورتوں کو اغواء ‘بچوں کو غلام اور مردوں کو ہلاک کر دیتا تھا۔ عادل کا پہلا حکم نامہ جاری ہوا کہ مزدوکی عورتوں کو قیمتی مال و اسباب سمیت رہا کردیں۔ اپنے اس حکم پر سختی سے عمل درآمد کروایا اور وہ عورتیں جو بیوہ اور بچے یتیم ہوئے ان کے لیے محل کے دروازے کھول دیئے۔ یتیم بچیاں بالغ ہوئی تو زیادہ سے زیادہ جہیز دے کر ان کی شادیاں کروائیں ۔ اس طرح دوسرے افراد میں بھی ایسی بچیوں کے ساتھ شادی کی تحریص پیدا ہوئی۔

عادل کی سوغاتوں میں عدل و انصاف اولین ترجیح تھی۔ صوبہ آذربائیجان کے گورنر کی شکایت لے کر ایک بڑھیا دارالحکومت آئی تو نوشیروان نے خاموشی کے ساتھ آذر بائیجان کا رخ کیا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ گورنر بڑھیا کے خاندان کے افراد کو بے دردی سے ہلاک کر کے اس کی جائیداد پر خود قابض ہو گیا۔ عادل نے گورنر کی زندہ کھال کھنچو اکر اسے عبرت کانشان بنا دیا۔ یہ خبر دیگر امرائے سلطنت پہنچی تو سب لرزہ براندام ہوئے اور آئندہ کے لیے کسی سے جوروستم روا رکھنے کی جسارت نہ ہوئی۔ ایران کو نوشیرواں کے عہد بادشاہت میں جو شاندارعظمت و رفعت حاصل ہوئی ‘وہ مقام کسی دوسرے کو نصیب نہ ہو سکا۔

اس کا عہد تاریخ انسانی کا درخشاں باب ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے پاس ایک سو بیس رومی ‘ہندی اور ایرانی طبیب تھے جو ضرورت پڑنے پر ہر ایک کے علاج و معالجہ کے لیے دستیاب ہوتے۔ ان میں مشہور طبیب برزویہ بھی تھا۔ جس نے ہندی کتاب’’کلپہ ودمنا‘‘کا فارسی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ اس ذہین و فطین وزیر بزُر ج مہر بھی تھا۔ یہ انتہائی دانا اور فاصل تھا۔ شطرنج اسی کی ایجاد تھی۔ مورخ یہ نکتہ لکھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر نوشیرواں کو یہ وزیردستیاب نہ ہوتا توشائد اسے اتنی کامیابیاں و کامرانیاں نہ مل پاتیں۔

نظام الملک نے لکھا ہے کہ اس بادشاہ نے محل کے باہر ایک گھنٹی لٹکا رکھی تھی جس کے ساتھ بندھی زنجیر محل کے اندر چلی گئی تھی۔ کسی بھی فریاد کناں کے لیے شب و روز کی کوئی قید نہ تھی۔ اس کے عہد میں طاق کسریٰ کی تعمیرات شاندار ایجاد تھیں۔ جس کے کھنڈرات آج بھی کے سیاحوں کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ مسعودی بیان کرتا ہے کہ ایک بار روم کا سفیر ایران کے دارالحکومت آیا تو محل کے کشادہ صحن کو ٹیڑھا دیکھا تورائے دی کہ اسے اصولاًمربع شکل میں ہونا چاہیے۔ جب اسے بتایا گیا کہ اس کے ایک کونے میں ایک بوڑھی خاتون کی کٹیا تھی جس کے ساتھ اس کے خاوند اور بیٹیوں کی یادیں وابستہ تھیں جو کسی جنگ میں ہلاک ہوچکے تھے۔

بادشاہ کی ترغیب کے باوجود وہ اپنی کٹیا سے دستبردار نہ ہوئی جس کی بدولت یہ ٹیڑھا پن نمودار ہوگیا۔ سفیر نے سنا تو حیرتوں میں ڈوب گیا۔ نوشیروان عادل اپنے عمائدین سلطنت سے مخاطب ہو کر کہتا ’’اگر مفت میں کسی کا نمک بھی حلق سے اتار لیا تو میری سپاہ منفی ا ثر لے گی اور پھر دوسروں کے کھیت و کھلیان اجاڑ دے گی‘‘ اگر سیاہ فام حبشیوں نے یمن کو اجاڑ دیا تو اس کا حکمران سیف زئی ‘نوشیروان سے امداد کا خواستگار ہوا تو عادل نے اسے دس ہزار درہم دیتے ہوئے کہا’’ تمہارا وطن بہت دور ہے اس کی رسائی ناممکن ہے‘‘۔ سیف نے رقم عام افراد میں تقسیم کردی۔ بادشاہ کو علم ہوا تو سختی سے جواب طلبی کی۔

سیف نے لجاجت سے کہا’’ اے بادشاہ! میرے لئے یہ رقم فضول تھی‘ میرا وطن وحشیوں کی زد میں ہے‘ میں کسی عیاشی کا متحمل کیسے ہوسکتا ہوں‘‘۔ نوشیروان اس جواب سے انتہائی مسرور ہوا اور اپنے جرنیل دوریز ولیمی کو بڑا لشکر دے کر اس کے ساتھ روانہ کیا جنہوں نے وحشیوں کو مار کر یمن سے باہر نکال دیا۔ پانچ سو چالیس عیسوی میں اہل روم میں نوشیروان سے کیئے گئے وعدے کی خلاف ورزی کی تو نوشیروان ان کی جانب پیش قدمی کر دی۔ روم اس کے زیرِ نگین ہوا تو عادل کی افواج نے انطاکیہ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ نتیجہ میں اس شہر میں چند افراد کے علاوہ کوئی ذی نفس زندہ نہ بچ سکا۔ عادل کو معلوم ہوا تو انتہائی رنجیدہ ہوا‘ اس نے اسی جگہ نیا شہر تعمیر کرنے کا حکم دیا اور اس کا نام روم کے نام پر رومیہ رکھا گیا‘

باقی ماندہ محروم افراد کو اسی شہر میں آباد کیا گیا۔بعد ازاں اہل ایران اور روم کے درمیان ایک اور امن معاہدہ طے پا گیا جس کی بدولت رومی ایران کو اخراج دینے کے پابند ہوئے۔ اس معاہدے کے بعد نوشیروان مطمین ہوا لیکن جلد ہی اسے معلوم ہوا کے سفید ہنوں نے جو روس اور چین کی سرحدات میں رہائش پذیر تھے شدید برفباری اور سردی میں کھلے میدانوں کی طرف کوچ کر جاتے اور تہذیب و تمدن کے ہر نشان کو مٹا دیتے تھے۔ عادل ان کی بربادیوں کی داستانوں سے آگاہ تھا۔ اپنے سپاہ کے ساتھ گندھارا موجودہ خیبر پختون خوا کی جانب کوچ کیا۔ جس علاقے میں پڑاؤ کیا ابتداء میں اس کا نام نوشیروان شہر رکھا گیا۔ جو مختصر ہو کر نوشہرہ ہوگیا ۔

نوشیروان کو اسی جگہ افسوس ناک اطلاع ملی کہ جن وحشیوں کے ارتداد کے لئے یہاں تک آیا ہے۔ وہ ٹیکسلا میں گپتا خاندان کے بادشاہ اشوک کی تعمیر کردہ عبادت گاہوں و درس گاہوں کی نیست و نابود کرکے واپس لوٹ چکے ہیں۔ بادشاہ اس لرزہ خیز خبر سے سیخ پا ہوا اور قسم کھائی کی کے ان وحشیوں کی نسل کے خاتمے تک دارالحکومت واپس نہ جائے گا۔ دریائے آمو کو عبور کرتے ہوئے ترکستان پہنچا اور شاہ ترکستان سے ہنوں کے خاتمے کا معاہدہ کیا جو ان سے ہمیشہ لرزاں رہتا تھا ۔ نوشیروان ان غاروں تک پہنچا جہاں وحشی رہائش پذیر تھے۔ انہیں وہاں سے نکال کر تہ تیغ کیا اور انسانیت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔عادل نے ترکستان کے شاہ کی دختر سے عقد کیا جس سے اس کا ایک فرزند تو لد ہوا۔

رومی پانچ سو اناسی میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خوفزدہ ہوئے تو جنگ کی ٹھان لی۔ ان کو گمان تھا کہ نوشیروان بوڑھا ہوچکا اور اس کے حوصلے پست ہوچکے ہیں۔اس پر کاری ضرب لگانے کا وقت آپہنچا ہے ۔ لیکن پیرانہ سالی کے باوجود نوشیروان خود میدانِ کارزار میں اترا اور ایرانی جو اپنے بادشاہ کے اشارہ آبرروپرکٹ مرنے کو تیار تھے‘ قیصرروم کو شکست سے دوچار کر دیا۔ اس شکست کی بدولت رومیوں نے پنتالیس ہزار سونے کے سکوں اور بیس ہزار سالانہ پونڈ ادا کرنے کا عہد کر کے جان کی امان حاصل کی۔ نوشیروان عادل نے اپنے عوام پر جو ٹیکس لگایا اس میں عُمر کی حد بیس سے پچا س سال مقرر کی۔ عورتیں‘ بچے‘ بوڑھوں کو استثنیٰ حاصل تھا۔ ٹیکس دہندگان کو بھی مختلف طبقوں میں تقسیم کیا۔

امراء بارہ درہم‘ متمول چاردرہم ادا کرنے کا پابند تھا۔ اسی طرح بادشاہ نے اپنی فوجی سرداروں کو بھی یہ حکم دے رکھا تھا جو قبائلی سردار بغاوت پر اتر آئے انہیں مغلوب کرکے قتل نہ کیا جائے بلکہ ان سے سزا کے طور پر فوجی خدمات لی جائیں۔ یہ باغی سردار جو فطرتاً بہادر ہوتے تھے دشمن کے حملوں کو جانفشانی سے روکتے اور سلطنت کے لئے بہترین خدمات سرانجام دیتے تھے۔ پانچ سو اناسی میں نوشیروان عادل طیسفون آیا تو شدید بیمار ہوکر تاریخِ انسانی ایک درخشاں باب کا اضافہ کر کے رحلت فرما گیا۔ شائد اختتامِ زمانہ تک عادل جیسا محرالعقول بادشاہ دوبارہ جنم نہ لے سکے۔ عادل فوت ہواا تو مکہ میں پیغمبر اسلامﷺ کی عمرِ مبارک 9 برس تھی۔ کہتے ہیں کے اسی بادشاہ کی نسل سے اسی کی پڑپوتی شہزادی شہربانو سلام اللہ علیہا سے سید نا امام حسینؓ کی شادی ہوئی تھی ‘اسی بدولت اہل ایران نے چودہ سو برس قبل اہل بیت کے لئے محبتوں کے جو چراخ جلائے تھے وہ آج بھی اسی طرح روشن ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جو نہیں آتا اس کی قدر


’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…