جمعرات کا دن تھا۔ یونیورسٹی میں صبح سے ہی چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ ایک لان میں اسٹیج سجا ہوا تھا۔ خوبصورت شامیانے لگے ہوئے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ طلبہ کی ٹولیاں جگہ جگہ نظر آ رہی تھیں۔ وہ گپ شپ میں مصروف تھے اور بات بات پر قہقہے لگا رہے تھے۔ ان کے چہروں سے خوشی کے آثار صاف دکھائی دے رہے تھے۔وہ خوش اس لیے تھے کہ آج ان سے دنیا کے دسویں امیر ترین شخص نے خطاب کرنا
تھا۔ اپنی کامیابی کے راز سے پردہ اٹھانا تھا کہ بارہ سالہ اخبار فروش بچہ کیسے دنیا کا امیر ترین آدمی بن گیا۔وہ آدمی شیلڈن تھا اور شیلڈن کی کہانی کچھ اس طرح ہے۔ شیلڈن ایڈلسن ایک امریکی بزنس مین ہے۔ جولائی 2014ء فوربس میگزین کے مطابق اس کے اثاثہ جات 36.4 ارب ڈالرز پر مشتمل ہے۔ اس مالیت کے ساتھ یہ دنیا کا دسواں امیر ترین شخص ہے۔ یہ ایک اسرائیلی اخبار کا مالک بھی ہے۔بہرحال! صبح 10 بجے وہ لمحہ آن پہنچا، جس کے لیے یہ سارے انتظامات کیے گئے تھے۔ شیلڈن مائیک پر آئے اور یونیورسٹی کے طلبہ اور پروفیسر سے خطاب کرنے لگے۔ 90 منٹ کی تقریر تھی۔ آخر پر سوالات کی نشست ہوئی۔ ایک طالب نے سوال کیا: ’’آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے؟‘‘ ’’میں اس کے بارے میں کبھی جان نہ سکا‘‘ شیلڈن نے کہا۔ اس کا یہ جواب طلبہ کے لیے انوکھا اور حیران کن تھا۔ ایک اور طالب علم نے ہمت کرتے ہوئے کہا: ’’یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آپ ترقی کی منزلیں طے کرتے چلے جائیں، اور آپ کو کامیابی کے اسباب کا علم تک نہ ہو۔‘‘ اس تبصرے پر شیلڈن ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ میری کامیابی کے راز اور اسباب بہت ہو سکتے ہیں لیکن جس کو میں اپنی ترقی کا راز سمجھتا ہوں وہ چار حرف پر مشتمل ایک لفظ ہے۔ رسک یعنی خطرات میں کود جانا۔ شیلڈن 14 اگست 1933 ء کو ایک غریب خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا۔ شیلڈن کا بچپن
ہی والدین کے لیے حیران کن تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک ایسا بچہ عطا کیا تھا جو بہت ساری خصوصیات کا مالک تھا۔ حوصلہ مندی، بہادری اور خطرات میں کود جانا اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس سے بڑھ کر یہ خوبی تھی کہ ناکامی سے گھبرانے کے بجائے اس سے مزید سیکھتا اور آگے بڑھتا چلا جاتا۔ 12 سال کی عمر میں شیلڈن نے اپنا بزنس کیرئیر شروع کیا۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ کوئی کاروبار کر سکتا۔
اس مشکل سے نکلنے کے لیے اس نے اپنے چچا سے دو سو ڈالر قرض لیے اور اس سے اخبار فروشی کا لائسنس خریدا۔ یہ صبح سویرے اٹھتا اور سائیکل پر اخبار لاد کر مختلف گھروں تک پہنچاتا اور پھر اسکول جاتا۔ یہ کام چار سال باقاعدگی سے چلتا رہا،لیکن اس کام میں ترقی کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ اس وجہ سے ٹافیاں بنانے والی مشین کی خرید و فروخت کا بزنس شروع کر لیا۔ اس دوران شیلڈن کو احساس ہوا کہ بزنس سے
متعلق تعلیم حاصل کرنی چاہیے، کیونکہ رسمی تعلیم عملی زندگی میں زیادہ ساتھ نہیں دے پاتی۔ شیلڈن ایک ٹریڈ اسکول میں بڑھنے لگا۔ ابھی تعلیم مکمل نہیں ہو پائی تھی کہ فوج میں بھرتی ہو گیا۔ کسی وجہ سے یہ فوج سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ اس کے بعد سٹی کالج آف نیو یارک میں پڑھنے لگا۔ بزنس ’’شیلڈن‘‘ کی رگوں میں خون
کی طرح دوڑتا تھا۔ اس لیے یہ تعلیم کے ساتھ پرس اور بیگ وغیرہ فروخت کرنے لگا۔ شیلڈن کے ساتھ ایک مسئلہ تھا جسے آپ اس کی خوبی یا عیب کہہ سکتے ہیں۔ یہ جس چیز میں نفع دیکھتا تو پہلے کام کو چھوڑ کر اس کی طرف لپک پڑتا۔ اس کے بعد یہ کیمیکل اسپرے فروخت کرنے لگا۔ ۔1960 ء میں اس نے ایک چارٹر ٹورز بزنس شروع کیا۔ بہت سارے خیر خواہوں اور دوستوں نے اسے اس بزنس میں کودنے سے منع کیا لیکن یہ
ہمیشہ رسک لیتا اور روکنے کے باوجود رکا نہیں کرتا تھا۔ ٹورزم (سیاحت) کے بزنس سے پہلے ہر کام میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن شیلڈن اس کو ناکامی نہیں کہتا تھا۔ اس کے مطابق یہ ایک رکاوٹ تھی جو اس کے راستے میں آئی اور ہٹ گئی۔ یہ بزنس اس کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اب اس کی کاروباری زندگی ایک نئے ڈگر پر چل پڑی۔ یہ جلد ہی لاکھوں مالیت کا مالک بن گیا۔ اگر شیلڈن کی 30 سالہ زندگی کا
جائزہ لیا جائے تو اس میں بے شمار اتار چڑھاؤ دکھائی دیتے ہیں۔ قدم قدم پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ شیلڈن نے اپنی کاروباری زندگی میں خود سے 50 بزنس کیے۔ اگر آپ بھی بزنس کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو رسک لینا پڑے گا۔ کاروباری سفر خطرات سے پُر ہوتا ہے۔اس میں کامیابی صرف ان کے قدم چومتی ہے جو رسک لیتے ہیں۔ جتنا آپ گُڑ ڈالیں، اتنا میٹھا ہوگا۔