اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا لیاقت باغ میں قتل کئی مشکوک کردار سامنے آئے مگر انہیں ایک ایک کرکے ٹھکانے لگا دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد سٹیج کی منظر عام پر آنے والی پہلی تصویر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی تقریر کے دوران ایک آدمی مسلسل مشکوک قسم کے اشارے کرنے میں مصروف رہا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ شخص بلاول ہاؤس کا سکیورٹی انچارج خالد شہنشاہ تھا، قبل اس کے کوئی راز فاش ہوتا،
بلاول ہاؤس کے سکیورٹی انچارج خالد شہنشاہ کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل سے متعلق ایک اہم کردار پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار علی تھا، انہیں بھی اسلام آباد میں اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ مقدمے کی سماعت میں حصہ لینے کے لیے عدالت جا رہے تھے، بے نظیر قتل کا مرکزی ملزم کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کو قرار دیا گیا مگر کچھ عرصے بعد ایک ڈرون حملے میں بیت اللہ محسود کو مار دیا گیا۔ ملزم عباد الرحمان عرف عثمان اور نادر عرف قاری اسماعیل فورسز کے ساتھ جھڑپ میں جبکہ ملزم عبداللہ عرف صدام اور نصراللہ عرف احمد ڈرون حملے میں مارے گئے۔ دریں اثناء سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے بچوں نے اپنی والدہ کے قتل کیس کا فیصلہ ناقابل قبول قرار دے کر مسترد کردیا۔عدالتی فیصلے پر بلاول، آصفہ اور بختاور بھٹو زرداری نے اپنے رد عمل کا اظہار سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیا۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور شہید بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے بینظر بھٹو کے قتل کیس میں دیئے گئے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے مایوس کن اور نا قابل قبول قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی رہائی نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پی پی پی اس حوالے سے قانونی چارہ جوئی کے بارے میں سوچے گی۔ آصفہ بھٹو نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ سہولت کاروں کو سزا دی گئی مگر جو اصل مجرم پایا گیا وہ آزاد ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جب تک مشرف اپنے جرم کا حساب نہیں دیتے انصاف نہیں ہوگا، ہم 10 سال بعد بھی انصاف کا انتظار کریں۔جبکہ بختاور بھٹو زرداری کا اپنی ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ مشرف نے جائے وقوعہ کو دھونے کا حکم دیا۔بختاور نے اپنی ٹوئٹ کے ساتھ ہیش ٹیگ میں پرویز مشرف کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
یاد رہے کہ راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 9 سال بعد بے نظیر قتل کیس کا فیصلہ سنادیا جس میں 5ملزمان کو بری اور پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیا گیا ہے جبکہ سابق پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کو 17، 17 سال کی سزا کا حکم دیا گیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے کیس میں انسداد دہشتگردی کی راولپنڈی کی کورٹ کی جانب سے آج دئیے ہوئے فیصلے پر سخت حیرانی اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کو یقین ہے کہ انصاف نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ہوتا ہوا نظر آیا ہے۔
القاعدہ اور طالبان دہشتگردوں کے خلاف ثبوت دئیے گئے تھے لیکن ان کی بریت بہت حیران کن ہے اور متعدد سوالات اٹھاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ القاعدہ کے عسکریت پسندوں کی فتح ہوئی ہے۔ دو پولیس افسران کو سزا دی گئی ہے لیکن یہ سوال کہ انہیں کس نے حکم دیا تھا کہ شہادت کے مقام کو دھو دیا جائے اور تمام اہم ثبوتوں کو ضائع کر دیا جائے۔ اس بات کا کوئی جواب نہیں ملا۔ پولیس افسروں کی سزا اس وقت تک کمزور رہے گی جب تک کہ انہیں حکم دینے والے لوگوں کے خلاف مقدمہ نہیں چلتا اور سزا نہیں ہوتی۔
یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اس کیس کے پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ اہم مرحلے میں داخل ہو چکے تھے اور وہ جنرل پرویز مشرف کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت کرنے والے تھے۔ یہ بات بھی نوٹ کی جاتی ہے کہ اس کیس کی ایف آئی آر پنجاب پولیس نے شہید محترمہ کے خاندان کے مشاورت کے بغیر درج کی اور پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی اس مقدمے میں فریق نہیں بنایا۔پیپلزپارٹی یاد دلاتی ہے کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے قتل کی سازش کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
یہ بات سب کو معلوم بھی ہے کہ جنرل مشرف نے انہیں دھمکی دی تھی کہ اگر وہ انتخابات سے قبل پاکستان واپس آئیں تو ان کی زندگی کو خطرہ ہوگا چونکہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اس مقدمے میں فریق نہیں بنایا گیا تھا پارٹی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف فوری طور پر اپیل دائر کرے۔ پاکستان پیپلزپارٹی بھی اس مقدمے میں فریق بننے کے لئے عدالتی ذرائع کا استعمال کرے گی اور اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے گی۔ پارٹی اس کیس کے مکمل فیصلے کے منظر عام آنے کے بعد اپنا تفصیلی ردعمل دے گی۔