ہفتہ‬‮ ، 21 جون‬‮ 2025 

انتظار کی گھڑیاں ختم، اہم ترین فیصلہ،پاکستان امریکہ کیخلاف اُٹھ کھڑا ہوا،دھماکہ خیز اعلان

datetime 30  اگست‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)قومی اسمبلی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل نکلسن کے پاکستان بارے الزامات پر مبنی بیانات سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جنرل نکلسن کے بیانات پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے خلاف اور دھمکی آمیز ہیں ٗ افغانستان کی سرزمین سے

پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کی جائیں‘ حکومت دوست ممالک بالخصوص خطے کے ممالک کے ساتھ موثر سفارتکاری کے ذریعے بات چیت کا عمل تیز کرے ٗ افغان حکومت پاکستانی طالبان‘ مجلس احرار اور دیگر دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرے ۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی21 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل نکلسن کے بیان کو مسترد کرتی ہے ٗخطے میں عدم استحکام اور افغانستان میں بھارت کا کردار بڑھانے کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کی مذمت کرتی ہے اور اسے خطے کے عدم استحکام پر مبنی اقدامات قرار دیتی ہے اور خطے کے موجودہ حالات اور زمینی حقائق کے برعکس قرار دیتی ہے ٗ جموں اور کشمیر کے عوام بھارتی فوج کی ریاستی دہشتگردی اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام پر مظالم کی پرزور مذمت کرتی ہے اور قومی اسمبلی اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کی حمایت جاری رکھے گا۔ یہ ایوان اس امریکی دعوے کو بھی مسترد کرتا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کو اربوں ڈالر دینے کی بات کی ہے ٗ پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 123 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ یہ ایوان اس بات کو محسوس کرتاہے کہ امریکی صدر کے اس بیان سے پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو نظر انداز اور بے توقیر کیا گیا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کے 70 ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے ہیں ٗیہ لعنت 4 دہائیاں قبل خطے میں لائی گئی اور بعد میں اسے بالکل نظر انداز کردیا گیا۔

قومی اسمبلی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی قربانیوں کا اعتراف کرتی ہے اور پاک فوج کے رینجرز اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے ہمراہ دہشتگردی کے خلاف آپریشن کی بھرپور سپورٹ کرتی ہے۔ یہ ایوان اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی قوت کے طور پر عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کا حامل ملک ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جنرل نکلسن کے بیانات پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے خلاف اور دھمکی آمیز ہیں۔ یہ ایوان حکومت پاکستان پر زور دیتا ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت اور بقاء کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے موثر اقدامات اٹھائے۔ قومی اسمبلی کا یہ ایوان امریکی حکام کے دورہ پاکستان کی منسوخی اور پاکستانی حکام کے امریکی دورہ کی منسوخی کے حوالے سے اقدامات کو تسلیم کرتا ہے اور حکومت پر زور دیتا ہے کہ وہ زمینی حقائق کے مطابق صاف اور واضح انداز میں امریکی حکومت کو حالات سے آگاہ کرے۔ دوست ممالک بالخصوص خطے کے ممالک کے ساتھ سفارتی طریقہ کار کے تحت بات چیت کا آغاز کیا جائے اور پاکستان کے دہشتگردی کے خلاف اقدامات ‘ قربانیوں اور کامیابیوں کو عالمی سطح پر بیانیہ کے طور پر اجاگر کیا جائے اور اس حوالے سے ان کو امریکہ کی ناکام پالیسیوں سے بھی آگاہ کیا جائے اور یہ ایوان اس بات پر زور دیتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان انٹرنیشنل بارڈر کا احترام یقینی بنانے کیلئے افغان سیکیورٹی اداروں اور آئی ایس ایف کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ قومی اسمبلی افغانستان اور پاکستانی سرحد سے ملحقہ افغان علاقے میں داعش اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی سرگرمیوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ اور افغانستان اور امریکہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج اور افغان سیکیورٹی ادارے پاکستانی علاقے میں دہشتگردوں کی دراندازی روکنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔

افغان حکومت پاکستانی طالبان‘ مجلس احرار اور دیگر دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرے۔ جہاں سے وہ پاکستانی علاقے میں دہشتگردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکہ نیٹو اور افغانستان کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ بھارت کو پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں سے روکیں۔ یہ ایوان اس بات پر بھرپور انداز میں زور دیتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ دو طرفیت اور باہمی احترام پر مبنی انداز میں بات کی جائے۔ یہ ایوان اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان امن اور سلامتی کا خواہش مند ہے اور حکومت پر زور دیتا ہے کہ اس حوالے سے موثر اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ اور یہ ایوان افغانستان کے ساتھ تعلقات اور امن کی بحالی کے لئے اقدامات کی بھرپور حمایت کرتا ہے ٗقومی اسمبلی نے قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری دے دی۔قبل ازیں امریکی صدر کے بیان اور امریکہ کی افغان پالیسی کے حوالے سے جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے سردار اویس لغاری نے کہا کہ ایک ٹریلین یو ایس ڈالر اخراجات کے بعد افغانستان وہیں کھڑا ہے جہاں 2000ء میں تھا۔ 16 سالوں میں تین صدور کی کوششیں ضائع‘ ہزاروں افراد کی قیمتی جانوں کا ضیاع‘ ہمارے تعلیمی ادارے‘ اے پی ایس حادثے کے باوجود افغانستان وہی کھڑا ہے۔ 50 فیصد سے زیادہ افغانستان کا خطہ امریکی اور اتحادی فورسز کے کنٹرول سے باہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی پارلیمانی وفد کے دورہ افغانستان میں ہم نے حالات کا بغور جائزہ لیا ہے۔ وہاں پر تو ایک وفد کی سیکیورٹی اتنی ہے افغانستان میں سفارتخانوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ جبکہ افغان حکومت انتظامی طور پر بھی ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے اندر سیاسی قوتیں نہیں چاہتیں کہ طالبان سیاسی عمل کا حصہ بنیں تو اس میں پاکستان کیا کر سکتا ہے۔ امریکہ کس بنیاد پر پاکستان پر الزام لگا رہا ہے۔ کیا امریکہ کی ویت نام‘ عراق‘ لیبیا کی پالیسیاں درست تھیں۔ پوری دنیا اس حقیقت کو پہچان چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلیم گیم کی بجائے عقل سے کام کرنا چاہیے۔ کیا یہ عقل کی بات ہے کہ افغان پالیسی پر بھارت کے کلیدی کردار کی تعریف کریں اور ایران‘ چین اور پاکستان کی بات تک نہیں کی۔ ایران‘ چین اور روس کا افغانستان کے حوالے سے اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اس سے زیادہ خوش نہیں ہوگا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب کرے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کو دیکھ کر بعض قوتیں اندھی ہوگئی ہیں اور بھارت کو افغانستان میں مہرے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش ہے جو پراکسی وار کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ سے تعلقات ختم کرنے کے حق میں نہیں لیکن امریکہ کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ منافقت چھوڑ دے۔ انہوں نے ایران‘ چین‘ روس اور امریکہ کی افغانستان کے حوالے سے جب تک مل بیٹھ کر آپریشن امور پر بات نہیں ہوگی تب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوگا۔

امریکی صدر کے بیان اور امریکہ کی افغان پالیسی کے حوالے سے جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے کہا کہ زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو کسی چیلنج کو مواقعوں میں تبدیل کریں‘ ماضی میں بھی امریکہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ آئے لیکن ہم اس میں ایسا نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی امریکہ کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اپنی خارجہ پالیسی امریکہ سے متعلق بنائے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان امریکی صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی ‘ پاکستان پر الزامات کو ہر فورم پر مسترد کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک امریکی سابق صدر نے کہا تھا کہ نہ ہمارا مستقل دوست ہے اور نہ مستقل دشمن ہیں۔ ہمیں بھی اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایک قومی یکجہتی کی پشت پناہی کے ساتھ ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پالسی بنانے والوں سے پوچھتے ہیں کہ کب تک ڈو مور ڈو مور کی گنجائش پیدا کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار پاکستانیوں کی شہادت‘ ہزاروں افراد اور مسلح افواج کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیز کے لئے تھنک ٹینک کا استعمال‘ ہر قومی ایشو پر دنیا بھر کو آگاہ کرنا‘ آزاد خودمختار معیشت تمام مسائل کا حل ہے۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ بھارت کو امریکہ اس خطے میں علاقائی طاقت کے طور پر سامنے لانا چاہتا ہے‘ امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کردار چاہتے ہیں بھارت وہ کردار ادا کرے گا۔

امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ بھارت کو سامنے لانے پر جو مسائل ہیں اس کو بھی حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان پر الزام تراشیاں شروع کردی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں کسی باہر کے ملک کا حصہ نہیں ہے۔ کشمیری عوام خود اپنی حق خودارادیت‘ آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہزاروں کشمیریوں کی شہادتیں‘ خواتین کی بے حرمتی‘ نوجوانوں پر انسانیت سوز تشدد روز کا معمول ہے لیکن عالمی قوتیں اس پر پراسرار طور پر خاموش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی کسی تنظیم کی مداخلت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت چاہتا ہے کہ چین جس طرح معاشی طور پر سامنے آرہا ہے اسے روکا جائے۔ سی پیک کے ذریعے ساؤتھ ایشیا تک رسائی ممکن ہوگئی اور پاکستان اس منصوبے میں شراکتدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین مستقبل قریب میں معاشی سپرپاور کے طور پر ابھرنے والی ہے جس پر امریکہ‘ بھارت خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کئی مرتبہ کہا کہ اپنی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں حقانی گروپ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سے چھ ملین افغانیوں کو نکالا گیا اور اس وقت بھی 30 لاکھ افغان عوام پاکستان میں ہیں جن کی پرامن واپسی کے خواہشمند ہیں۔ کیا یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ 30 لاکھ افغانیوں میں سے کوئی دہشت گرد یا کالعدم تنظیم کا آلہ کار ہے‘ ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے قریب آجائیں یہ کسی بھی طور پر بھارت کو قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں بھی ایران نے پاکستان سے تعاون کیا ہے اور مستقبل میں بھی یہ تعاون جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ اس میں مسلح افواج کے سربراہان بھی ہوں اور اس مشترکہ اجلاس میں متفقہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے رکن قومی اسمبلی مولانا امیر زمان نے کہا کہ یہود و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں بن سکتے اس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری 70 سال امریکہ سے دوستی رہی اس میں دو باتیں اہم ہیں جب افغانستان میں روس آیا تو طالبان کی حمایت کی ہدایت دی گئی اور جس افغانستان میں طالبان حکومت آئی تو امریکہ کے کہنے پر ان کی مخالفت شروع کردی۔ امریکہ نواز پالیسیاں ہمیشہ آمریت کے دور میں بنائی گئیں جس کا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا دہشت گرد امریکہ ہے جس نے دنیا کے خلاف ایٹم بم بھی استعمال کیا۔ اس سرزمین پر آج پیدا ہونے والے بچے بیمار ہوتے ہیں۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ جس طرح روس ٹکڑے ٹکڑے ہوا ہے ایسے ہی امریکہ بھی اپنے اقدامات اور پالیسیوں کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دور آمریت میں امریکہ کو جو فضائی حدود میں لاجسٹک سپورٹ دی گئی اس کے بعد امریکہ مزید شیر ہوگیا اور پاکستان پر الزامات پر الزامات لگانے شروع کردیئے۔ آمریت کے ادوار میں امریکہ کے الزامات پر جواب دینے کی بجائے سمجھوتہ کیا جاتا رہا۔ سردار کمال خان بنگلزئی نے کہا کہ ایک بیانیے کی اشد ضرورت ہے جو مسلح افواج‘ پارلیمنٹ کی جانب سے جاری ہو‘ پوری قوم حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ افغانستان میں بہت سی قوتیں ناکام ہوئیں‘ اب 16 سال سے امریکہ افغانستان میں ہے لیکن کامیابی دور دور تک نظر نہیں آرہی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کتنا مزید نقصان اٹھائے گا نظر آرہا ہے کہ افغانستان سے عنقریب امریکہ نکل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے وابستہ ہے۔ افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان میں بھی امن ہوگا۔ یہ بات ہمارے بزرگوں نے کہی تھی اور آج یہ حقیقت بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عیدالاضحی کے فوراً بعد امریکہ کے صدر ٹرمپ کے الزامات کے حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات بہتر ہوں۔خسرو بختیار نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ آج کہاں کھڑی ہے۔ الیکشن منشور میں تو ٹرمپ نے افغانستان نے جو فوجی انخلاء کا اعلان کیا تھا لیکن افغان نئی پالیسی اس اعلان کے برعکس ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ 2011ء میں ایک لاکھ 40 ہزار فورسز کے ساتھ جنگ نہیں جیت سکا ہے۔ 50 ہزار طالبان جاں بحق اور 25 ہزار زخمی ہوئے ہیں لیکن حالات یہ ہیں کہ افغان نیشنل آرمی کے 4000 جوان سالانہ افغان آرمی چھوڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس خطے میں استحکام اور امن کے لئے چین بڑا سٹیک ہولڈر ہے۔ ٹرمپ پالیسی بیان پر چین نے دوٹوک جواب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت اس معاملے پر ایک پیج پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے اندر جتنے بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ان میں سے 17 فیصد حقانی نیٹ ورک کے تھے اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف 15 ماہ میں امریکی فورسز نے افغانستان میں بھرپور کارروائی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک قومی بیانیے کی ضرورت ہے جو اتفاق رائے سے دنیا کے سامنے رکھنا ہوگا۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے انجینئر علی محمد خان نے کہا کہ آج اس شخص نے ہمیں للکارا ہے اسے معلوم نہیں کہ پاکستانی عوام‘ مسلح افواج ایک پیج پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کو شاید پتہ نہیں کہ پاکستان کی فوج کے ساتھ ہماری قوم دشمن کے خلاف لڑنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھے لیکن پھر بھی امریکہ کے اتحادی بنے اور ڈو مور پر کام کرتے رہے لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ایک دہشت گرد ملک ہے اور دہشت گرد کو ساتھ لے کر چلے گا وہ دہشت گرد ہی ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے قائد محمد علی جناح نے 1942ء میں ایک بات کی تھی ’’ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ جس پاکستان کی بات کرتے ہیں اس کا طرز حکمرانی کیا ہوگا۔ جس کے جواب میں قائد اعظم نے کہا کہ میں کون ہوتا ہوں مسلمانوں کی طرز سیاست کا فیصلہ کرنے والا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہماری جمہوریت کی بنیاد اسلام پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ غلطیوں سے سیکھا جائے۔ موثر سفارتکاری یقینی بنائی جائے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ بحث سمیٹتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ 1979ء کے بعد افغانستان کے ساتھ تعلق تین حصوں میں تقسیم کیا ٗ پہلا حصہ ہم نے جو جہاد کیا‘ دوسرا حصہ 90ء کی دہائی میں روسی افواج کے انخلاء کے بعد ہم اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے لئے کوشش کرتے رہ جو نہ آئی طالبان کی حکومت آئی جس میں کسی حد تک ہماری مرضی شامل تھی۔

تیسرا حصہ نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے اپنے اقتدار کے تحفظ اور طوالت کے لئے افغانستان کی جنگ میں اپنے اڈے اور وسائل فراہم کئے۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم اس کے نتائج آج بھگت رہی ہے۔ یہ ہمیں ایسے مقام پر لے آیا ہے جہاں پر ہماری سلامتی کو خدشات لاحق ہوگئے ہیں جو دیرپا اثرات کے حامل ہیں۔ ان اثرات کو روکنے یا ان کا قلع قمع کرنے کے لئے گزشتہ چار سالوں میں آپریشن ضرب عضب‘ آپریشن ردالفساد اور خیبر فور نامی آپریشن کئے۔ پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں نے بے مثال قربانیاں دیں جس سے بڑی حد تک سیکیورٹی بحال ہوئی ہے مگر اس کے باوجود ہم سے ڈور مور کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔ قوم اور قومی ادارے اس طرز عمل کے خلاف متحد ہیں اور پوری قوم اس کے سامنے کھڑی ہے۔ اس سلسلے میں سینٹ نے سفارشات دی ہیں قومی اسمبلی کی سفارشات بھی آچکی ہیں۔بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا ۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کنفیوژن


وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…